مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12928
تاریخ اجراء:06محرم الحرام1445ھ/25جولائی 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ بیوہ اگر نصاب کی مالکہ ہو،تو کیا اس پر زکاۃ فرض ہوتی
ہے؟ اور جو بیوہ صاحبۂ نصاب ہونے
کے باوجوداس بنا پرزکاۃ ادا نہ کرے کہ وہ بیوہ ہےاور بیوہ پر زکاۃ
لازم نہیں ہوتی ۔اس کے لئے کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکاۃ اعظم فرائضِ
دین اور اہم ارکانِ اسلام میں سے ہے ،اس کی عظمت و اہمیت
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں
بتیس جگہ نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا اور مختلف انداز میں
بندوں کو زکاۃ کی ادائیگی کی طرف بلایا۔
قرآن کریم میں نازل فرمانِ خدواندی اور حدیث میں
وارد ارشادِ نبوی کے مطابق ہر
مسلمان مرد و عورت جوعاقل ،بالغ ، آزاد،
صاحبِ نصاب ہو اور اس کے نصاب پر سال گزر گیا ہو،تو اس پر اپنے مال کی
زکاۃ نکالنا فرض ہے ، بیوہ جب صاحبۂ نصاب ہے تو وہ بھی
اس حکم میں داخل ہے کہ وہ بھی
شرعی احکام کی پابند ہے، بیوہ ہوجانے کی وجہ سے وہ اس حکم
سے باہر نہیں نکل سکتی۔
زکاۃ فرض ہونے کے
باجود زکاۃ ادا نہ کرنےوالوں کے لئے خدائے ذوالجلال نے دردناک عذاب کی
بشارت دی ہے،زکاۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سےبروزِ قیامت
یہی مال ان لوگوں کی جان کے لئے وبال بن جائے گا کہ یہ
مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گااور پھر اس تپے ہوئے مال سے ان کی پیشانیوں ، کروٹوں
اور پیٹھوں کو برابر داغا جائے گا اور حدیث پاک کے مطابق جس مال
کی زکاۃ ادا نہ کی جائے وہ مال گنجے سانپ کی صورت
میں زکاۃ ادا نہ کرنے والےپربطورِ عذاب مسلط کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ
بھی مختلف حدیثوں
میں زکاۃ ادا نہ کرنے والوں
کے لئے مختلف وعیدات بیان کی گئی اور زکاۃ کی
ادائیگی نہ کرنے پر بیان کی گئی آفتیں وہ
نہیں جن کو برداشت کیا جاسکے، ایک کمزور و ناتواں انسان
کی کیا جان جو ان آفتوں کو برداشت کرسکے کہ یہ آفتیں اگر
سخت پہاڑوں پر ڈال دی جائیں ، تو سرمہ ہو کر خاک میں مل
جائیں۔العیاذ باللہ تعالی من ذلک۔لہٰذا جو بیوہ صاحبۂ نصاب ہو ،اس پر لازم ہے
کہ زکاۃ فرض ہوجانے کی صورت میں بلا تاخیر فوراً اپنے مال
کی زکاۃ ادا کرے، زکاۃ فرض ہوجانے کے بعد اس کی
ادائیگی نہ کرنا یا ادائیگی میں تاخیر
کرنا ، دونوں گناہ ہیں۔
زکوٰۃ
کی فرضیت سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَ
اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ“ترجمہ کنزالایمان: ”اور نماز قائم رکھو اور
زکوٰۃ دو ۔“(پارہ 01،سورۃ
البقرۃ،آیت نمبر 43)
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر
میں صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ
اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” اس آیت میں نمازو
زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے۔“ (تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 17، مکتبۃ المدینہ،
کراچی)
ترمذی شریف
کی حدیثِ مبارک میں ہے:”عن ابن عباس أن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم بعث معاذا إلى اليمن فقال له
إنك تأتي قوما أهل كتاب فادعھم الی شھادۃ ان لا الہ الا اللہ
وانی رسول اللہ ۔۔۔ فان ھم اطاعوا لذلک فأعلمهم أن اللہ افترض عليهم
صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم“یعنی حضرتِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہ وسلم نے جب حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن
کی طر ف بھیجاتو فرمایا کہ تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو۔ تم ان کو اس بات
کی گواہی کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود
نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، پھر اگر وہ اس کی اطاعت کر
لیں ، تو تم انہیں یہ بات سکھلانا کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں
میں زکوٰۃ فرض کی ہے ، یہ زکوٰۃ مال
داروں سے لے کر فقراء کو دی جا ئے ۔(سنن الترمذي، جلد 3، صفحہ 12، مطبوعہ: مصر)
وجوبِ زکوٰۃ کی شرائط سے متعلق
ملتقی الابحر، کنز الدقائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں
مذکور ہے:”و شرط وجوبھا العقل و البلوغ و الاسلام و الحریۃ و ملک النصاب
حولی فارغ عن الدین و حاجتہ الاصلیۃ نام ولو
تقدیراً۔“یعنی زکوٰۃ
واجب ہونے کی شرائط یہ ہیں: عاقل ہونا، بالغ ہونا، مسلمان ہونا،
آزاد ہونا، ایسے نصاب کا مالک ہوناجس پر سال گزرچکا ہو،اور وہ نصاب قرض اور
حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو اور مال کا نامی ہونا اگرچہ تقدیراً
ہو۔(کنز الدقائق، صفحہ203،مطبوعہ: دار السراج)
زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو عذاب دئیے جانے سے
متعلق قرآن پاک میں اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے:” وَ
الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ
الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ
بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى
عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ
ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵) “ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے
ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ
نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ جس
دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے
ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں
یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزااس جوڑنے کا۔
(پارہ 10،سورۃ التوبہ، آیت 34۔35)
مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”مذکورہ دردناک عذاب ان بخیلوں کو اس دن ہوگا جب ان کے جمع کردہ
سونے چاندی کو یا دوسرے زکاتی مال کی قیمت کے سونے
چاندی کو دوزخ کی آگ
میں تپایا جاوے گا ، ان پر آگ دھونکی جاوے گی پھر اس تپے
ہوئے سونے چاندی سے ان کی پیشانیوں ، کروٹوں اور
پیٹھوں کو برابر داغا جاوے گا ،جس کی تکلیف ان کی برداشت
سے باہر ہوگی اور ساتھ میں رب تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی کہا جاوے گا کہ یہ
اس جرم کی سزا ہے جو تم نے ہمارے دئیے ہوئے مال کو کنز بنا کر جوڑے
رکھا ، اگر اسے کنز نہ بناتے تو اس مال پر ثواب پاتے ، اب کنز دفینہ بنانے کا مزہ اچھی طرح چکھو“ (تفسیرِ نعیمی، جلد 10،صفحہ 269،
نعیمی کتب خانہ ، گجرات)
بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من آتاه اللہ مالا فلم
يؤد زكاته مثل له مالہ يوم القيامة شجاعا
أقرع، له زبيبتان، يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه ثم يقول أنا
مالك أنا كنزك ثم تلا {لا يحسبن الذين يبخلون}الآية “یعنی جس اللہ پاک نے
مال دیااور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہ کی، تو قیامت
کے دن اس کے مال کو گنجے سانپ کی
صورت میں کردیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی ،وہ
سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر وہ سانپ اس
کی باچھیں پکڑ کر کہے گا :میں تیرا مال ہوں ، میں
تیرا خزانہ ہوں۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:” وَ
لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ
یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ
اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ
مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ
هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ- “(ترجمۂ کنز
الایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے
انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں
بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے ۔ عنقریب وہ جس میں بخل
کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا)(صحیح بخاری،جلد 2، صفحہ 106، دار طوق النجاۃ)
امام اہلسنت الشاہ امام
احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”زکوٰۃ
اعظم فروضِ دین و اہم ارکانِ اسلام سے ہے ،ولہٰذا قرآنِ عظیم
میں بتیس جگہ نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا اور طرح طرح سے
بندوں کو اس فرضِ اہم کی طرف بلایا“(فتاوی رضویہ، جلد10،صفحہ 172،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
زکاۃ نہ دینے
والوں سے متعلق کئی احادیث بیان کرنے کے بعد امامِ اہلسنت
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”غرض زکاۃ نہ دینے
کی جانکاہ آفتیں وہ نہیں جن کی تاب آسکے ، نہ دینے
والے کو ہزار سال ان سخت عذابوں میں گرفتاری کی امید
رکھنا چاہئے کہ ضعیف البنیان انسان کی کیا جان ، اگر
پہاڑوں پر ڈالی جائیں سرمہ ہوکر خاک میں مل جائیں“(فتاوی رضویہ، جلد10،صفحہ 178، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہارِ شریعت
میں ہے:”زکاۃ فرض ہے ، اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق
اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا گناہگار و مردود
الشہادۃ ہے“ (بھارِ شریعت، جلد 1،صفحہ 874، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی رضویہ
میں ہے:”حولانِ حول(یعنی زکوٰۃ کا سال پورا ہو
جانے)کے بعد ادائے زکوٰۃ میں اصلاً تاخیر جائز
نہیں،جتنی دیر لگائے گا ، گناہ گار ہو گا۔ “ (فتاویٰ
رضویہ ، جلد10، صفحہ202، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟