مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان
عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2259
تاریخ اجراء: 27جمادی الاول1445 ھ/12دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیٹا اگر اپنے مال سے،
ماں کی طرف سے زکوۃ نکالنا چاہے،تو ماں کی اجازت
سے زکوۃ نکال سکتا ہے اور اِس
سے ماں کی زکوۃ
ادا ہوجائے گی۔البتہ
ماں کی اجازت کے بغیر، ماں کی طرف سے زکوۃ ادا
کرنے کا اُسے اختیار نہیں
ہوگا اوراس سے ماں کی زکوۃ بھی ادا نہ
ہوگی۔ نیزجب ماں کی
اجازت کے ساتھ بیٹا اپنے مال سے، ماں کی زکوۃ ادا کرے تو ظاہر ہے کہ واجب زکوۃ
کی ادائیگی پر ملنے والا ثواب تو
ماں کو ہی حاصل ہوگا اور بیٹے کے لئے ایک ثواب تو ماں کے
ساتھ اچھے سلوک کا ہے اور دوسرا زکوٰۃ کی
ادائیگی میں معاونت کا ۔
بنایہ شرح ہدایہ میں ہے : ”ولو أدی
زکاۃ غیرہ من مال نفسہ بغیر أمرہ فأجازہ لا
یجوز وبأمرہ یجوز“ ترجمہ: اگر کسی دوسرے کے حکم کے بغیر
اس کی زکوۃ اپنے مال سے ادا کر دی اور بعد میں اُس دوسرے
نے اِس کو جائز قرار دے دیا ، تو یہ جائز نہیں (یعنی
زکوۃ ادا نہیں ہوگی) اور دوسرے کی اجازت سے زکوٰۃ
دی ، تو جائز ہے ( یعنی پھر زکوٰۃ ادا ہوجائے گی
) ۔(البنایہ
شرح الھدایہ، کتاب الزکوۃ، جلد3، صفحہ314، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’دوسرے کی
طرف سے کوئی فرض وواجبِ مالی ادا کرنے کے لیے اُس کی
اجازت کی حاجت ہے،اگر بالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر یا اُس کی
زکوٰۃ، ماں باپ نے اپنے مال سے ادا کردی یا ماں باپ کی
طرف سے اولاد نے اور اصل جس پر حکم ہے اس کی اجازت نہ ہُوئی تو ادا نہ
ہوگی‘‘۔(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ139،رضافاؤنڈیشن
،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟