مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2648
تاریخ اجراء: 10شوال المکرم1445 ھ/19اپریل2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہم قسطوں پر چیزیں خریدتے ہیں،
بقایا اقساط کی جو رقم ہے اسے نصاب سے الگ شمار کیا جائے گا یا
نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جتنی اقساط
باقی ہیں،انہیں نصاب سے مائنس کرکے بقیہ نصاب پر
دیگر شرائط کی موجودگی میں زکوۃ لازم
ہوگی۔
چنانچہ در مختار میں ہے”(فلازکاۃ
علی۔۔مدیون للعبدبقدردینہ)فیزکی الزائد
ان بلغ نصابا ‘‘ ترجمہ : جس پر کسی بندے کا قرض ہو،اُس قرض کی مقدارزکوۃ نہیں
ہوگی۔ہاں!اگرقرض نکال کربچنے والابقیہ مال، نصاب کو پہنچ
جائے،تواُس کی زکوۃ دینی گی۔(در مختار مع رد
المحتار،کتاب الزکاۃ،ج 2،ص 263،دار الفکر،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟