Advance Zakat Lene Wala Ghani Ho Gaya Tu Zakat Ka Hukum

ایڈوانس زکوۃ لینے والا غنی ہو گیا تو زکوۃ کا حکم ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13332

تاریخ اجراء:28رمضان المبارک 1445ھ/08 اپریل 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   میرا بھائی بیمار تھا ، اس کو علاج کے لئے ہسپتال میں ایڈمٹ ہونا تھا لیکن اس کے پاس رقم نہیں تھی، چونکہ وہ اس وقت شرعی فقیر تھا تو میں نے ایڈوانس زکاۃ  کے طور پر اس کو علاج کے لئے رقم دے دی۔اس نے اپنا علاج کروایا،  جب میرے نصاب کا سال مکمل ہوا، تو میرا بھائی جس کو میں نے زکاۃ دی تھی، وہ خود مالکِ نصاب ہوچکاتھا، اس صورت میں مَیں نے جو اس کو ایڈوانس زکاۃ دی ، وہ ادا ہوگئی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس وقت آپ نے اپنے بھائی کو  ایڈوانس زکاۃ کے طور پر علاج کے لئے رقم دی ،اس وقت وہ شرعی فقیر تھا، لہٰذا آپ کی زکاۃ ادا ہوگئی۔  زکوۃ دینے والے کے نصاب پر سال پورا ہونے کی صورت میں زکوۃ لینے والے  کا مالدار ہوجانا، ادا ہوجانے والی زکاۃ پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ اصل اعتبار زکوۃ دیتے وقت کا ہے ۔

   جوہرہ نیرہ وفتاوی ھندیہ میں ہے:”لو عجل أداء الزكاة إلى فقير ثم أيسر قبل الحول أو مات أو ارتد جاز ما دفعه عن الزكاة “ یعنی اگر کسی نے فقیر کو پیشگی زکاۃ ادا کردی پھر نصاب پرسال پورا ہونے سے پہلے وہ مالدار ہوگیا یا مرگیا یا (معاذ اللہ) مرتد ہوگیا، تو جو  زکاۃ کی مد میں دیا جا چکا وہ جائز ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 176، مطبوعہ:مصر)

   بدائع الصنائع ،در مختار و البحر الرائق  وغیرہ میں ہے:واللفظ للبحر:”لو عجل زكاة ماله فأيسر الفقير قبل تمام الحول أو مات أو ارتد جاز عن الزكاة ؛ لأنه كان مصرفا وقت الصرف فصح الأداء إليه فلا ينتقض بهذه العوارض “یعنی اگر کسی نے اپنے مال کی زکاۃ پیشگی ادا کر دی پھر سال تمام ہونے سے پہلے فقیر مالدار ہوگیا یا مر گیا یا (معاذ اللہ)مرتد ہوگیا، تو زکاۃ ادا ہوگئی، کیونکہ زکاۃ دیتے وقت وہ مصرف تھا ،تو اس کو زکاۃ دینا درست ہوگیا،لہٰذا ان عوارض کی وجہ سے ادائیگی  ختم نہ ہوگی۔(البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 242، مطبوعہ: بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اثنائے سال میں جس فقیر کو زکاۃ دی تھی، ختمِ سال پر وہ مالدار ہوگیا یا مر گیا یا معاذ اللہ مرتد ہوگیا، تو زکاۃ پر اس کا کچھ اثر نہیں، وہ ادا ہوگئی“(بھارِ شریعت، جلد1، صفحہ 892، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم