مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2470
تاریخ اجراء:21ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/10 جولائی 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس
مسئلے کے بارے میں کہ میں صاحبِ نصاب ہوں ،
میں نے گزشتہ کچھ سالوں
میں اس طرح زکوٰۃ ادا کی کہ کرونا کے موقع پر زکوٰۃ
کی مد میں کافی رقم دی، پھر سیلاب کا واقعہ ہوا ، تو اس وقت بھی زکوٰۃ
کی مد میں کافی رقم دی ، پھر ترکی میں
ہونے والے زلزلے کے موقع پر بھی زکوٰۃ
کی مد میں کافی ساری
رقم جمع کروائی ۔ اب میں نے حساب لگایا ہے ، تو وہ ٹوٹل رقم میرے
آئندہ تقریباً تین سال کی زکوٰۃ
کے لیے کافی ہو چکی
ہے یعنی میرے پاس 2026ء تک اندازاً جتنا مالِ زکوٰۃ رہے گا
، اس کی اندازاً جتنی زکوٰۃ
بنتی ہے ، اتنی رقم میں زکوٰۃ کی مد میں دے چکا ہوں ۔میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں زکوٰۃ
کی نیت سے دی
ہوئی اس اضافی رقم
کو اگلے تین سال کی
زکوٰۃ میں شمار کر سکتا ہوں ؟ میرا غالب گمان یہی ہے کہ میرے پاس 2026ء تک یہ
سب قابلِ زکوٰۃ مال موجود رہے گا ۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں آپ زکوٰۃ کی نیت سے دی ہوئی
اس اضافی رقم کو اگلے تین سال کی زکوٰۃ میں شمار
کر سکتے ہیں اور اگر ان سالوں میں آپ مالکِ نصاب رہے ، تو یہ ایڈوانس دی گئی زکوٰۃ درست ہو جائے
گی۔
اس
مسئلے کی تفصیل یہ
ہے کہ زکوٰۃ واجب ہونے
کا اصل سبب زکوٰۃ کے نصاب کا مالک ہونا ہے اور
جو مسلمان مرد یا عورت مالکِ نصاب ہو ، اس کے لیے ضروری
نہیں کہ وہ سال مکمل ہونے
پر زکوۃ ادا کرے، بلکہ
وہ سال مکمل ہونے سے پہلے بھی پیشگی
یعنی ایڈوانس میں اپنی زکوۃ دے سکتا ہے ،
چاہے ایک ہی بار میں اکٹھی دے دے یا سال کے دوران تھوڑی
تھوڑی کر کے دیتا
رہے اور سال مکمل ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ
ادا کر دینا زیادہ
بہتر ہے ۔ پھر جس دن اس کا زکوٰۃ
کا سال مکمل ہو ، اس دن اس کی ملکیت میں جتنا قابلِ زکوٰۃ مال ہو ، اس کا حساب کر کے دیکھے ، اگر وہ ابھی
بھی مالکِ نصاب بن رہا ہو اور اس نصاب کی مکمل زکوٰۃ ادا کر چکا ہو ، تو ٹھیک اور اگر کم ادا کی ہو ، تو جتنی باقی ہو ، فوراً ادا
کر دے ،کیونکہ سال مکمل
ہونے کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں اور اگر زیادہ ادا کر چکا ہو ، تو جتنی
زیادہ دی ہے ،
اسے مالکِ نصاب ہونے کی وجہ
سے اگلے ایک یا زیادہ
سالوں کی زکوٰۃ
میں شمار کر سکتا ہے ۔
مالکِ نصاب کئی سال کی زکوٰۃ
ایڈوانس میں دے سکتا ہے،کیونکہ اس کے حق میں زکوٰۃ
واجب ہونے کا سبب یعنی ملکیتِ
نصاب موجود ہے ۔ چنانچہ تنویر الابصار و درمختار میں ہے : ”(و لو عجل ذونصاب) زکاتہ (لسنین
او لنصب صح) لوجود السبب “ ترجمہ : اور اگر صاحبِ نصاب نے کئی سالوں یا
کئی نصابوں کی زکوٰۃ جلدی ادا کر دی ، تو صحیح
ہے ، سبب پائے جانے کی وجہ سے۔
رد المحتار میں ہے : ”قولہ (لوجود السبب) ای : سبب الوجوب و ھو ملک النصاب النامی ، فیجوز التعجیل لسنۃ او اکثر “ ترجمہ : مصنف علیہ الرحمۃ
کا قول (سبب پائے جانے
کی وجہ سے) یعنی زکوٰۃ
واجب ہونے کا سبب اور وہ نصابِ نامی
کا مالک ہونا ہے ، لہٰذا ایک یا زیادہ سالوں کی (زکوٰۃ) پہلے ہی
ادا کر دینا ، جائز ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص262۔263 ،
مطبوعہ کوئٹہ)
رد
المحتار ہی میں ہے : ”فی الولوالجیۃ : لو کان عندہ اربعمائۃ
درھم فادی زکاۃ خمسمائۃ ظانا انھا کانت ، کان لہ ان یحسب الزیادۃ للسنۃ الثانیۃ ،
لانہ امکن ان یجعل الزیادۃ تعجیلا “ ترجمہ
: ولوالجیہ میں ہے کہ اگر اس (یعنی
صاحبِ نصاب) کے پاس چار سو درہم
ہوں اور اس نے اپنے پاس پانچ سو درہم
سمجھ کر پانچ سو درہم کی
زکوٰۃ ادا کر دی
، تو اسے اختیار ہے کہ اس زیادہ
دی گئی زکوٰۃ
کو دوسرے سال میں شمار کر لے ،کیونکہ زیادتی
کو پیشگی زکوٰۃ
قرار دینا جائز ہے ۔ (رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص263 ، مطبوعہ کوئٹہ)
زکوٰۃ ایڈوانس میں ادا ہو جانے
کا اصل سبب نصاب کا مالک ہونا ہے، لہٰذا
اگر ایک سے زیادہ سالوں
میں مالکِ نصاب رہا ، تو ان سب سالوں کی ایڈوانس دی گئی زکوٰۃ
درست ہو گی ۔ چنانچہ عنایہ
شرح ہدایہ میں ہے : ”(ویجوز التعجیل لاکثر من سنۃ) لان ملک النصاب سبب
وجوب الزکاۃ
فی کل حول ما لم ینتقص ، وجواز التعجیل
باعتبار تمام السبب ، وفی ذلک الحول الاول والثانی سواءٌ “ ترجمہ : (اور ایک سال سے زیادہ
کی زکوٰۃ پیشگی
دینا ، جائز ہے) کیونکہ
زکوٰۃ
واجب ہونے کا سبب ہر سال میں نصاب
کا مالک ہونا ہے ، جب تک نصاب سے کم نہ ہو جائے اور پیشگی دینے کا
جواز سبب کے مکمل ہونے کے
اعتبار سے ہے اور اس معاملےمیں
پہلا اور دوسرا سال برابر ہیں ۔ (العنایة مع الفتح القدیر ، ج2 ، ص213 ،
مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں : ”حولانِ
حول(یعنی زکوٰۃ کا سال پورا ہو جانے)کے بعد ادائے
زکوٰۃ میں اصلاً تاخیر جائز نہیں ، جتنی
دیر لگائے گا ، گنہگار ہو گا ۔ ہاں پیشگی دینے
میں اختیار ہے کہ بتدریج دیتا رہے ، سالِ تمام پر حساب کرے
، اُس وقت جو واجب نکلے ، اگر پورا دے چکا ، بہتراور کم گیا ہے ، تو
باقی فوراً اب دے اور زیادہ پہنچ گیا ، تو اسے آئندہ سال
میں مُجرا (یعنی شمار کر) لے ۔“(فتاوی رضویہ ، ج10 ، ص202 ، مطبوعہ
رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
نوٹ : واضح رہے کہ جو شخص مالکِ نصاب نہ ہو یعنی اس
کی ملکیت میں قابلِ زکوٰۃ مال اتنا نہ ہو کہ جس پر زکوٰۃ لازم ہوتی
ہے ، وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ایڈوانس ادا نہیں کر سکتا ،کیو
نکہ اس کے حق میں زکوٰۃ
واجب ہونے کا اصل سبب
یعنی نصاب کا مالک ہونا موجود نہیں ہے ، لہٰذا
اگر اس سبب کے پائے جانے سے پہلے کوئی رقم وغیرہ زکوٰۃ
کی نیت سے ادا کی،تو
وہ زکوٰۃ شمار نہیں ہو گی۔
چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے: ”ويجوز تعجيل الزكاۃ بعد ملك النصاب ، ولا
يجوز قبله کذا فی الخلاصۃ
“ ترجمہ : مالکِ نصاب ہونے
کے بعد زکوٰۃ پیشگی
ادا کرنا ، جائز ہے اور مالکِ نصاب ہونے سے پہلے ادا کرنا، جائز
نہیں۔ ایسے ہی فتاوی خلاصہ میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ ، کتاب
الزکوٰۃ ، الباب الاول فی تفسیرھا الخ ، ج1 ، ص194 ، مطبوعہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟