مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1199
تاریخ اجراء: 22جمادی الاول1445 ھ/07دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس سال
زکوۃ لازم ہوئی تھی اسی سال کے حساب سے ریٹ لگانا
ہوگا ۔
فتاوی اہلسنت
میں ہے:”جس کے پاس کئی سالوں سے مالِ زکاۃ موجود ہے اور اس نے
زکوۃ ادا نہیں کی تو اس پر سالِ گزشتہ کی زکوۃ
نکالنا لازم ہے ، زکوۃ نکالنے میں گزشتہ سالوں کے ریٹ کا
اعتبار کیا جائے گا یعنی ہر قمری سال کے مکمل ہونے پر
مقدارِ نصاب اور کل مال کا تعین کر کے ہر سال کی جتنی
زکوۃ بنتی ہے ، اس کو ادا کر دیا جائے “(فتاوی
اہلسنت، کتاب الزکاۃ، صفحہ 237، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟