مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1511
تاریخ اجراء: 29شعبان المعظم1445 ھ/11مارچ2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
دو اسلامی بہنوں کو ان کے ایک رشتہ
دار کچھ جوڑے اور رقم وغیرہ تحفہ دے گئے اور کہا کہ یہ میری
طرف سے تحفہ ہیں،جبکہ ان کے گھر کی عورت نے بتایا کہ اس نے زکوۃ دی ہےیہ ہر
سال ایسے ہی دیتے ہیں، گھر ذاتی ہےمگر کچھ سونا
چاندی نہیں ہے بس 30ہزار کے قریب رقم جمع رکھی ہو گی
دونو ں کے پاس ،اب دینے والے سے وضاحت لینا ضروری ہےاور ایک
اسلامی بہن ہے سیدہ ہیں تو کیا حکم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جو اسلامی بہن سیدہ نہیں ہیں اگر
وہ شرعی فقیر ہیں یعنی ان کی ملکیت میں
ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد مال حاجتِ اصلیہ
(ضروریات زندگی) کے علاوہ نہ ہو نیز وہ ہاشمی بھی
نہ ہوں تو انہیں اگر زکوۃ دی
بھی گئی ہے تو کوئی حرج نہیں مگرجو اسلامی بہن سیدہ
ہیں ان کو نہ زکوۃ دینا جائز ہے اور نہ ان کے لیے لینا
جائز ہے اور نہ دینے والے کی زکوۃ ادا ہو گی لہٰذا
ان کو دیے گئے تحائف کے متعلق وضاحت لینا ضروری ہے کہ اگر زکوۃ
ہے تو انہیں واپس کردیں یہ بتاکر کہ ہم سید ہیں اور
اگر زکوۃ نہیں ہے تو انکے لئے بھی لینا جائز ہے۔
نوٹ :حاجت اصلیہ کے حوالے سے صدرالشریعہ رحمۃ اللہ
تعالی علیہ فرماتے ہیں :’’ حاجت اصلیہ یعنی
جس کی طرف زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے ۔۔۔
جیسے رہنے کا مکان جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے خانہ دار ی
کے سامان سواری کے جانور خدمت کے لیے لونڈی غلام ،آلات
حرب ،پیشہ وروں کے اوزار ،اہل علم کے لیے حاجت کی کتابیں
کھانے کے لیے غلہ۔(ملتقطا)‘‘(بہار شریعت ،جلد:1،صفحہ :880،881،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟