حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11459

تاریخ اجراء:18شعبان المعظم1442 ھ/02اپریل 2021 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کو حج کرنے کااز حدشوق ہے،لہذا زید نےاس مقصد سے اپنےپاس رقم جمع کرنا شروع کی ہےاوراس پر سال گزر گیا ہےاورزیدصاحبِ نصاب بھی ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیازیدمذکورہ رقم کی بھی زکوۃنکالے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر قرض اور حاجت اصلیہ سے فارغ ہو کر رقم نصاب کے برابر پہنچے، تو پوچھی گئی صورت میں اس پر زکوۃ نکالنا فرض ہوگا۔

    جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”تجب الزکاۃ عند تمام الحول الاول کذا فی فتح القدیر  وھکذا فی الکافی وکل دین لا مطالب لہ من جھۃ العباد کدیون اللہ تعالی من النذور والکفارات وصدقۃ الفطر ووجوب الحج لا یمنع“یعنی زکوۃ سال پورا گزرنے پر واجب ہوجاتی ہے،فتح القدیراورکافی میں یونہی لکھا ہےاورہر وہ دین جس کا مطالبہ لوگوں کی طرف سے نہ ہو ،جیسے اللہ عزوجل کے دین مثلاً نذور،کفّارے،صدقہ فطر،حج کالازم ہونا یہ تمام چیزیں زکوٰۃ کے  لیےمانع نہیں۔   

(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،صفحہ173،مطبوعہ پشاور)

    فتاوی شامی میں ہے:”اذا امسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول وقد بقی معه منه نصاب فانه يزكی ذلك الباقی  وان كان قصده الانفاق منه ايضا فی المستقبل لعدم استحقاق صرفه الى حوائجه الاصلية وقت حولان الحول “یعنی حاجت اصلیہ میں خرچ کرنے کے لیےرقم رکھی،پھر سال پورا ہوگیا، مگر اب بھی رقم بقدرِ نصاب باقی تھی تو باقی کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی، اگرچہ اسی نیت سے رکھے ہیں کہ آئندہ حاجت اصلیہ ہی میں صرف ہوں گے،کیونکہ فی الحال سال پورا ہونے پران کا حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کا استحقاق ثابت نہیں ہوا۔

(ردّ المحتارمع الدرالمختار،جلد3،صفحہ218،مطبوعہ کوئٹہ)

    جو صورت سوال میں پوچھی گئی بعینہ اسی متعلق شیخ الاسلام والمسلمین امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا:”زید بشوقِ زیارتِ حرمین طیبین کچھ پس انداز کرتا جاتاہے، اس طرح پر اب وہ صاحبِ نصاب عرصہ ڈیڑھ سال سے ہوگیا تو اس کو صدقہ فطر وزکوٰۃ وقربانیِ عید الاضحٰی کرنا چاہئے یا نہیں ؟“آپ علیہ الرحمۃ نےجواب میں ارشاد فرمایا۔”اس پر زکوۃ فرض ہے اور صدقہ و قربانی واجب۔“

(فتاوی رضویہ،جلد 10، صفحہ140، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”حاجت اصلیہ میں خرچ کرنے کے روپے رکھے ہیں تو سال میں جو کچھ خرچ کیا،کیااور جو باقی رہے اگر بقدرِ نصاب ہیں ،تو ان کی زکوٰۃ واجب ہے اگرچہ اسی نیت سے رکھے ہیں کہ آئندہ حاجت اصلیہ ہی میں صرف ہوں گے اور اگر سال تمام کے وقت حاجت اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے ،تو زکوٰۃ واجب نہیں۔“

(بھار شریعت،جلد1،حصہ5،صفحہ881،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    حج مانعِ زکوۃ نہیں جیساکہ آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”جس دَین کا مطالبہ بندوں کی طرف سے نہ ہو اس کا اس جگہ اعتبار نہیں یعنی وہ مانع زکاۃ نہیں، مثلاً نذر وکفارہ و صدقہ فطر و حج و قربانی کہ اگر ان کے مصارف نصاب سے نکالیں تو اگرچہ نصاب باقی نہ رہے زکاۃ واجب ہے، عشر و خراج واجب ہونے کے لیے دین مانع نہیں یعنی اگرچہ مدیُون ہو، یہ چیزیں اس پر واجب ہو جائیں گی۔“

    (ایضاً،صفحہ879)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم