زکوٰۃ کے پیسوں سے فقیر شرعی کا قرض ادا کرنا کیسا؟ |
مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Aqs-1903 |
تاریخ اجراء:16صفر المظفر1442ھ/04اکتوبر2020ء |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص
کرائے پر رہتا ہے اور اس پر کچھ لوگوں کا قرض بھی ہے ۔ اس شخص کے مالی حالات ٹھیک نہیں
ہیں ۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ اگر ہم اس کو پیسے
وغیرہ دیں ، تو وہ خود خرچ کر لیتا ہے ، کرایہ اور قرض
خواہوں کا قرض بھی نہیں دیتا ، جس وجہ سے وہ لوگ اس کے بچوں
اور گھروالوں کو پریشان کرتے ہیں
۔ ہم چاہتے ہیں کہ زکوٰۃ کے پیسوں سے اس شخص
کا کرایہ اور قرض ادا کر دیا کریں ، تاکہ وہ لوگ بچوں
کو پریشان نہ کیا کریں ۔ آپ سے یہ شرعی
رہنمائی درکار ہے کہ (1)کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں
کہ اس شخص کی طرف سے اپنی زکوٰۃ
کے پیسے جواُس شخص کو دینے ہیں ، کرائے کی مد میں
ڈائریکٹ مالک مکان اور قرض خواہوں کو دے دیا کریں ؟(2)یا
وہ شخص مجھے اجازت دے دے کہ میں اُس کی طرف سے زکوٰۃ کے
پیسوں سے مالک مکان کو کرایہ اور قرض خواہوں کا قرض ادا کر دیا
کروں ؟ جس سے اُس کے ذمے سے کرایہ اور قرض بھی اتر جائے اور میری
زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے ۔ دونوں میں سے جو طریقہ
بھی شرعاً جائز ہے ، رہنمائی فرما دیں ۔ نوٹ :سائل نے
وضاحت کی ہے کہ مذکورہ شخص شرعی فقیر ہے یعنی اُس
کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت
جتنا سونا، چاندی، روپیہ پیسہ، مالِ تجارت اور حاجتِ اصلیہ
سے زائد سامان موجود نہیں ہے ۔ نیز وہ ہاشمی بھی
نہیں ہے ۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں آپ
کا اس شخص کو زکوٰۃ کا مالک
بنائے بغیر اور اس کی اجازت کے بغیر ڈائریکٹ مالک مکان یا
قرض خواہوں کو رقم دینے سے آپ کی زکوٰۃ ادا نہیں
ہوگی ، کیونکہ زکوٰۃ کا رکن ہے فقیرِ شرعی
کو مالک بنانا اور جب آپ اس شخص کو مالک بنائے بغیر یا اس کی
اجازت کے بغیر مالک مکان اور قرض خواہوں کو رقم دیں گے ، تو
زکوٰۃ کا رکن نہیں پایا جائے گا ، جس وجہ سے زکوٰۃ
ادا نہیں ہوگی ،
لہٰذا یہ طریقہ اختیار نہیں کر سکتے ۔ ہاں اگر وہ شخص آپ کو اجازت دے دیتا
ہے کہ میری طرف سے زکوٰۃ کے پیسوں سے میرا
کرایہ اور قرض ادا کر دیا کرو ، تو ایسی صورت میں
آپ کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ، کیونکہ جب وہ شخص اپنی زکوٰہ والی رقم
مالک مکان اور قرض خواہوں کو دینے کی آپ کو اجازت دے دے گا، تو وہ
لوگ اُس شخص کی طرف سے بطورِ نائب مالِ زکوٰۃ پر قبضہ کریں
گے ، جو اُس شخص کا ہی قبضہ شمار
ہوگا اور اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ، لہٰذا یہ
طریقہ اختیار کر سکتے ہیں ۔ زکوٰۃ کا رکن فقیرِ شرعی
کو مالک بنانا ہے ۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے : ” و قد امر اللہ تعالی الملاک بایتاء
الزکاۃ لقولہ عز وجل ﴿
وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ
﴾و الایتاء ھو التملیک
“ ترجمہ : اللہ عز وجل نے
مال والوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ ( یعنی زکوٰۃ
دو ) اور ایتاء یعنی
دینے کا مطلب ہی مالک کر دینا ہوتا ہے ۔ ( بدائع الصنائع ، کتاب
الزکوٰۃ ، فصل رکن الزکوٰۃ ، ج 2 ، ص 142 ، مطبوعہ
کوئٹہ ) سیدی اعلیٰ حضرت
امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:”
زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر ( یعنی فقیر
کو مالک بنانا ) ہے ۔ جس کام میں فقیر کی تملیک
نہ ہو ، کیسا ہی کارِ حَسن ہو جیسے تعمیرِ مسجد یا
تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین ، اس سے
زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی ۔ “ ( فتاویٰ رضویہ ،
جلد 10 ، صفحہ 269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور ) شرعی فقیر مقروض کی طرف
سے قرض خواہ قبضہ کر لے ، تو زکوٰۃ ادا ہوجانے سے متعلق بحر الرائق
میں ہے : ’’ لو قضى دين الحي إن قضاه بأمره جاز، ويكون القابض كالوكيل له
في قبض الصدقة كذا في غاية البيان وقيده في النهاية بأن يكون المديون فقيرا ‘‘ ترجمہ : زندہ شخص کی
اجازت سے اگر ( کسی نے مالِ زکوٰۃ سے ) اس کا قرض ادا کر دیا
، تو جائز ہے ( یعنی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ) اور
قبضہ کرنے والا ( قرض خواہ ) مقروض کی طرف سے صدقہ میں قبضہ کے وکیل
کی طرح ہوگا ۔ جیسا کہ غایۃ البیان میں
ہے ۔ نہایہ میں اس چیز کی قید لگائی
ہے کہ مقروض فقیرِ شرعی ہو ۔ ( البحر الرائق ، کتاب الزکوٰۃ
، باب مصرف الزکوٰۃ ، جلد 2 ، صفحہ 261 ، مطبوعہ بیروت ) در مختار میں ہے : ’’ دین الحي الفقير فيجوز لو
بأمره ‘‘ ترجمہ : زندہ فقیرِ
شرعی کی اجازت سے ( اگر کسی نے) اس کا دَین ( یعنی
قرض ادا کر دیا ،) جائز ہے ۔ رد المحتار میں ہے:”(دین الحی الفقیرفیجوز
لو بامرہ)ای یجوز عن الزکاۃ علی انہ تملیک منہ
والدائن یقبضہ بحکم النیابۃ عنہ ثم یصیر قابضا
لنفسہ “ترجمہ:زندہ شرعی فقیر کے دَین ( قرض ) کو، اس کی اجازت سے ادا کرنا ، جائزہے ، یعنی
زکوۃ کے طور پر جائز ہوجائے گا ، اس بناء پر کہ اس ( زکوٰۃ دینے
والے) کی طرف سے مالک بنانا پایا گیا اور قرض خواہ نیابت
کے طور پر مقروض کی طرف سے قبضہ کرے گا، پھر ( گویا کہ ) یہ مقروض کا اپنا
قبضہ کرنا ہی شمار ہو گا۔ (رد المحتار
علی الدر المختار، جلد3، صفحہ342، کوئٹہ) صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی
امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارشریعت میں
فرماتے ہیں:”فقیر پردَین (
قرض ) ہے ، اس کے کہنے سے مالِ زکاۃ سے وہ دَین ( قرض ) ادا
کیا گیا ،زکوۃ ادا ہوگئی۔“ (بھارشریعت ، حصہ 5،جلد 1 ،
صفحہ927، مکتبۃ المدینہ ، کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟