زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟ |
مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:fmd:0997 |
تاریخ اجراء:05ذوالقعدۃ الحرام 1439ھ/19جولائی2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میرے والدمحترم کی ملکیت میں 45لاکھ روپےکی مالیت کاایک مکان ہے ، جسے وہ فروخت کرکے اس کی رقم بچوں میں شرعی طریقۂ کارکے مطابق تقسیم کرناچاہ رہے ہیں۔ہم پانچ بھائی اورتین بہنیں ہیں اورہماری والدہ بھی حیات ہیں۔ارشادفرمائیں کہ ہربھائی اورہربہن کوشرعی اعتبارسے کتنی رقم ملےگی؟نیز میرےوالدصاحب اپنے لیے اورمیری والدہ کے لیے کتنی رقم رکھ سکتے ہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
جب تک کوئی شخص زندہ ہو ، اس وقت تک اس کےمال میں کسی کا ازروئے ترکہ کوئی حق نہیں ہوتا کہ وراثت کا معاملہ بعدِ وفات ہوتا ہے نہ کہ حیات میں۔اس لیے ازروئے قضا بیٹا ہویا بیٹی ،کسی کوبھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنےباپ یا ماں کی حیات میں ان سے وراثت طلب کرےاور اس طرح مطالبے سے اگران کو اذیت پہنچتی ہو ، تواولادکےلیے ایسا مطالبہ کرنا بھی ناجائزو حرام ہےکہ وہی سارے مال کے مالک ہیں ۔ اگروہ اپنے کسی بیٹے یابیٹی کو کچھ بھی نہ دیں ، تو اس صورت میں وہ گنہگارنہیں ہوں گے۔ البتہ اگرآپ کےوالداپنی خوشی سےاپنی زندگی میں ہی اس مکان کوفروخت کرکےاس کی رقم تقسیم کرنا چاہیں ، تو اپنے لیےاورآپ کی والدہ کے لیےجتنی رقم رکھناچاہیں ، رکھ سکتے ہیں ۔اس کے بعد جتنا مال اولاد میں تقسیم کرناچاہیں ، تواس کی دوصورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ کہ لڑکے اور لڑکی کا فرق کیے بغیر سب کوبرابر دیا جائے اور یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ بھی اختیارکیاجاسکتاہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دُگنا دیا جائے۔یہ بھی جائز ہے ۔ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں”مذہبِ مفتی بہ پر افضل یہی ہے کہ بیٹوں بیٹیوں سب کو برابر دے۔ یہی قول امام ابویوسف کا ہے اور”لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ “دینا بھی، جیسا کہ قول امام محمد رحمہ اللہ کاہے ، ممنوع وناجائز نہیں اگر چہ ترکِ اولیٰ ہے۔ردالمحتار میں علامہ خیرالدین رملی سے ہے:” الفتوی علی قول ابی یوسف من ان التنصیف بین الذکر والانثٰی افضل من التثلیث الذی ھو قول محمد“ (فتویٰ امام ابو یوسف کے قول پر ہے یعنی لڑکے لڑکی دونوں کو برابر ، برابر دیا جائے ، یہ بہتر ہے لڑکے کو لڑکی سے دُگنا دینے والے قول سے اور یہ قول امام محمد علیہ الرحمۃ کا ہے۔مترجم) حاشیۂ طحطاوی میں فتاویٰ بزازیہ سے ہے:”الافضل فی ھبۃ البنت والابن التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھو المختار“(یعنی بیٹے اور بیٹی کو دینےمیں افضل وراثت والا طریقہ ہے ، جبکہ امام ابویوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک برابر دینا اولیٰ ہے اور یہی قول مختارہے۔مترجم) بالجملہ خلاف افضلیت میں ہے اور مذہبِ مختار پر اولیٰ تسویہ( یعنی برابر ، برابر )، ہاں اگر بعض اولاد فضل دینی میں بعض سے زائد ہو ، تو اس کی ترجیح میں اصلاً باک نہیں ۔(فتاوٰی رضویہ ،ج19،ص231 ،رضا فاؤنڈیشن لاھور) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
وراثت کی کرائے پر دی ہوئی مشترکہ دکانوں میں بہنوں کا حق؟