Zindagi Mein Jaidad Taqseem Karne ka Tarika

زندگی میں جائیداد تقسیم کا طریقہ

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6938

تاریخ اجراء:26شعبان المعظم1443ھ31مارچ2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ اگر کوئی اپنی  زندگی  کے اندر ہی  اپنی جائیداد اپنے بیٹے بیٹیوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہو، تو اس حوالے سے  شرعی رہنمائی  فرمائیں کہ کیا طریقہ کار ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ہر شخص کواپنے تمام مَملُوکہ اموال(وہ تمام مال کہ جس  کا وہ مالک ہے) کے بارے میں اپنی زندگی میں اختیار ہوتا ہے، چاہےتمام  مال خرچ کر ڈالے یا کسی کو دے دے، اس کی زندگی میں اس کے مال میں اس کی اولاد یا کسی اور کا بطورِ وراثت کوئی حق نہیں،لہذا اس کا زبردستی مطالبہ بھی نہیں کر سکتے، البتہ اگرکوئی اپنا مال اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کرے، تو بہتر ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں میں سب کو برابر ، برابر دے ،کیونکہ بیٹے کا بیٹی کی بنسبت دُگنا وِراثت میں ہوتا ہے اور وراثت مرنے کے بعد ہوتی ہے،البتہ اگر بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دُگنا دے دیا، تو یہ بھی جائز ہے اور اگر اولاد میں سے کوئی فضیلت رکھتا ہو مثلاً طالبِ علمِ دین ہو، عالِم ہو یا والِدین کی خدمت زیادہ کرتا ہو، تو اس کو زیادہ دینے میں حرج نہیں ۔ نیز اگر اولاد میں کوئی فاسق ہو کہ جس کے بارے میں خوف ہو کہ یہ گناہوں میں مال صرف کرے گا، تو اُسے بالکل  کچھ نہ دینا بھی جائز ہے، لیکن بلاجہ شرعی اولاد یا دیگر حقیقی وُرثاء کو یا ان  میں سے بعض کو وِراثت سے محروم کردینا اورسارا مال یا زیادہ مال  دوسروں کو دےدینا جائز نہیں ۔ بہر حال اس صورت میں بھی  اگر اُس نے اپنا مال کسی کو دے دیا، تو  وہ اُس کا مالک ہو جائے گا ۔

     ہر شخص اپنے مال میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔چنانچہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان  علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”جب وہ اُسی کی مملوکہ ہے، تو نفسِ زمین  میں اُسے ہر طرح کے تصرف مالکانہ کا اختیار ہے جسے چاہے دے سکتا ہے، جو چاہے کر سکتا ہے۔“(فتاوی رضویہ ج19،ص223،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

     امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اپنی زندگی میں بیٹوں ، بیٹیوں میں مال تقسیم کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:” مذہب مفتیٰ بہ پر افضل یہی ہے کہ بیٹوں بیٹیوں سب کو برابر دے، یہی قول امام ابویوسف کا ہے اور﴿ لِلذَّكَرِ  مِثْلُ  حَظِّ  الْاُنْثَیَیْنِ دینا بھی جیسا کہ قول امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کاہے ، ممنوع وناجائز نہیں، اگر چہ ترکِ اولی ہے۔

     ردالمحتار میں علامہ خیرالدین رملی سے ہے:”الفتوی علی قول أبی یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذی ھو قول محمد“فتوی امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کے قول پر ہے کہ مرد اور عورت کو نصف نصف دینا، مرد کو دو اور عورت کو ایک ، تین حصے بنانے سے بہتر ہے اور یہ تین حصے امام محمد رحمہ اللہ تعالی کا مذہب ہے ۔

     حاشیۂ طحطاویہ میں فتاوی بزازیہ سے ہے:”الأفضل فی ھبۃ البنت و الابن التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھو المختار“  بیٹی اور بیٹے کو ہبہ کرنے میں تین حصے میراث کے طورپر افضل ہے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک نصف نصف دینا افضل ہے اور یہی مختار ہے۔

     بالجملہ خلاف (اختلاف)افضلیت میں ہے اور مذہب مختار پر اولیٰ تسویہ(برابر ، برابر دینا بہتر ہے)، ہاں اگر بعض اولاد فضلِ دینی(دینی اعتبار سے فضیلت) میں بعض سے زائد ہو، تو اس کی ترجیح میں اصلاً باک  نہیں۔“(فتاوی رضویہ ، ج19،ص231،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

     فاسق و فاجر کو محروم کر سکتے ہیں۔چنانچہ البحر الرائق میں ہے:”لو کان ولدہ فاسقا فاراد ان یصرف مالہ الی وجوہ الخیر و یحرمہ عن المیراث ھذا خیر من ترکہ“ترجمہ:اگر کسی کا بیٹا فاسق ہو اور  اس کا ارادہ ہے کہ اپنے  مال کو نیکی کے کاموں میں خرچ کرے اور بیٹے کو میراث سے محروم کر دے، تو اس صورت میں نیکی کے کاموں میں مال خرچ کردینا ترکے(وراثت)میں  مال  چھوڑ جانے سے بہتر ہے۔(البحر الرائق، ج7، ص490، مطبوعہ پشاور)

     بلاوجہ حقیقی وُرثاء میں سے بعض کو وِراثت سے محروم کردینا اور سارا مال دوسروں کو دے دینا جائزنہیں۔چنانچہ   نبی پاک  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”من فر من میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیٰمۃ “ترجمہ: جو اپنے وارث کو میراث پہنچنے سے راہِ فرار اختیار کرے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اُس کی میراث کو ختم کر دے گا۔ (سنن  ابن ماجہ، ص 195، مطبوعہ کراچی)

     کسی ایک وارث کو مال دینے اور بلاوجہِ شرعی دوسروں کو بالکل محروم کردینے کے متعلق امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اگر کوئی شخص غیر محجور (وہ شخص جسے بیع و شراء ، صدقہ و ہبہ وغیرہا تصرفات کی اجازت ہوتی ہے)اپنی ساری جائیداد ایک ہی بیٹے کو دےد ے اور باقی اولاد کو کچھ نہ دے، تو یہ تصرف بھی قطعاً صحیح و نافذ ہے، اگرچہ عند اللہ گنہگار ہو گا۔“(فتاوی رضویہ، ج19، ص237، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم