Wasiyat Ki Sharai Haisiyat Kya Hai?

وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2017

تاریخ اجراء:03شعبان المعظم1442ھ/16مارچ2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگ اپنی زندگی میں کسی نیک کام سے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا مال فلاں نیک کام مثلا : مسجد مدرسے ، دینی طالبِ علم یا کسی غریب یتیم کی مدد میں خرچ کر دیا جائے ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اسلام ہمیں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ہی اپنے مال کے بارے میں کوئی وصیت کر جائیں کہ ہمارے فوت ہونے کے بعد ہمارا یہ مال کسی نیک کام میں یا صدقہ جاریہ کے طور پر خرچ کر دیا جائے ؟ اگر اسلام اس کی اجازت دیتا ہے، تو اس کی مقدار کیا ہے ؟ یعنی کس حد تک ہم اپنے مال سے وصیت کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اسلام اپنے ماننے والوں کی دنیا و آخرت دونوں جہاں کی مصلحتوں کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی دنیا بھی سنوارتا ہے اور آخرت کی دائمی زندگی بہتر بنانے کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں بارہا اس چیز پر ابھارا گیا کہ اپنی آنے والی دائمی زندگی کے لیے جمع کرو ۔ ایک جگہ یوں سمجھایا کہ  انسان کے صرف تین ہی مال ہیں : ایک جو کھا کر ختم کر دیا ، دوسرا جو پہن کر پرانا کر دیا اور تیسرا جو  صدقہ کر کے آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ۔وصیت کی اجازت دے کر  شریعت نے آدمی کی بہت سے جائز خواہشات اور اخروی حاجات کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہے ، کیونکہ وصیت میں بعض اوقات انسان کسی دوست، رشتے دار کے فائدے کا کوئی کام کرتا ہے ، جو فی نفسہٖ جائز و مباح ہے اور وصیت میں خصوصا نیکی کے کاموں کی تاکید کی جاتی ہے ، جیسے مسجد، مدرسے،دین یا  غریب، یتیم کی خدمت وغیرہ۔

   وصیت کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگراس کے وصیت کرنے سے کہ وصیت کا مال نکال کر باقی ورثاء میں تقسیم کریں گے ، تو ورثاء تنگدست ہوجائیں گے ، تو بہتر ہے کہ وصیت نہ کرے ورنہ اس کے لیے وصیت کرنا مستحب ، عظیم اجر و ثواب کا کام ہے اور شرعاً اس کی مقدار یہ ہے کہ بندہ اپنے مال میں سے ایک تہائی حصے کی وصیت کر سکتا ہے ۔ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت معتبر نہیں ہوتی ۔ اسی طرح جو شخص پہلے سے ہی وراثت کا حق دار بن رہا ہو ، اس کے لیے کی گئی وصیت بھی معتبر نہیں ہوتی ، البتہ اگر کسی شخص نے ایک تہائی سے زیادہ کی یا کسی وارث کے لیے وصیت کی اور اُس کے فوت ہونے کے بعد تمام ورثاء تہائی سے زیادہ یا وارث کے لیے کی گئی وصیت نافذ کرنے کی اجازت دے دیں اور وہ سب اجازت دینے کے اہل بھی ہوں ، تو یہ وصیتیں بھی قابلِ عمل ہوں گی ۔

   ان احکام  کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ يقول ابن آدم مالي مالي قال وهل لك يا ابن آدم من مالك إلا ما أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت أو تصدقت فأمضيت ‘‘ ترجمہ : انسان ’’ میرا مال میرا مال ‘‘ کرتا ہے مگر تمہارے مال سے وہ ہے، جو تونے کھالیا وہ ختم ہوگیا اور جو پہن لیا وہ پرانا ہوگیا، جو راہِ خدا میں خرچ کیا وہی باقی رہا۔( الصحیح لمسلم ، کتاب الزھد و الرقاق ، جلد 2 ، صفحہ 407 ، مطبوعہ کراچی )

   وصیت کی اہمیت سے متعلق بخاری شریف میں حدیثِ پاک ہے : ’’ أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده ‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب  نہیں کہ اس کے پاس کوئی قابلِ وصیت چیز ہو اور وہ وصیت لکھے بغیر دو راتیں گزار لے ۔ ( صحیح البخاری ، کتاب الوصایا ، جلد 2 ، صفحہ 382 ، مطبوعہ کراچی )

   ایک اور حدیثِ پاک میں ہے کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا: ’’ من مات على وصية مات على سبيل وسنة ومات على تقى وشهادة ومات مغفورا له ‘‘ترجمہ : جو وصیت کرنے کے بعد فوت ہوا، وہ سیدھے راستے اورسنت پر فوت ہوا اوراس کی موت تقویٰ اور شہادت پر ہوئی اوراس حالت میں مرا کہ اس کی مغفرت ہوگئی۔ ( سنن ابن ماجہ ، کتاب الوصایا ، باب الحث علی الوصیۃ ، صفحہ 194 ، مطبوعہ  کراچی)

   ایک حدیثِ پاک میں وصیت کا تفصیلی واقعہ مذکور ہے ،چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ عادني رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وأنا مريض فقال أوصيت قلت نعم قال بكم قلت بمالي كله في سبيل اللہ قال فما تركت لولدك قلت هم أغنياء بخير قال أوص بالعشر فما زلت أناقصه حتى قال أوص بالثلث والثلث كثير ‘‘ ترجمہ : میں بیمار تھا کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام میری عیادت کے لیے تشریف لائے ، تو ارشاد فرمایا : کیا تم نے وصیت کر دی ہے ؟ میں نے عرض کیا:جی ہاں ! آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:کتنے مال کی وصیّت کی؟ میں نے عرض کیا:راہ خدا میں اپنے تمام مال کی وصیت کی ہے ۔ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:اپنی اولاد کے لیے کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا: وہ لوگ اغنیا یعنی صاحب مال ہیں، آپ نے فرمایا:دسویں حصہ کی وصیّت کرو۔ تو میں مسلسل کمی کرتا رہا ( یعنی بار بار پوچھتا رہا کہ اتنے مال کی وصیت کر دوں ۔۔۔ ؟ ) یہاں تک کہ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:ثلث مال کی وصیّت کرو اور ثلث مال بہت ہے۔ ( سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی الوصیۃ بالثلث ، جلد 1 ، صفحہ 316 ، مطبوعہ لاھور )

   الجوہرۃ النیرۃ میں ہے : ’’الوصية مشروعة بالكتاب والسنة ۔۔ الوصية غير واجبة وهي مستحبة أي للأجنبي دون الوارث ولا تجوز الوصية للوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون لأن الامتناع لحقهم فيجوز بإجازتهم ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون ملخصاً ‘‘ ترجمہ : وصیت قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہے ۔غیرِ وارث کے لیے وصیت کرنا واجب نہیں ، مستحب ہے ۔ وارث کے لیے وصیت درست نہیں ، ہاں اگر وصیت کرنے والے شخص کی وفات کے بعد ورثاء اس کی اجازت دیں ، جبکہ وہ تندرست ( یعنی  شرعی طور پر ذہنی مریض نہ ہوں ) اور بالغ ہوں ( تو وارث کے لیے کی گئی وصیت بھی قابلِ عمل ہوگی) ، کیونکہ ( وارث کے لیے وصیت کی ) ممانعت ورثاء کے حق کی وجہ سے تھی ، تو ان کی اجازت کے ساتھ جائز ہوجائے گی اور ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت بھی درست نہیں ، مگر یہ کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد ورثاء اس کی اجازت دے دیں ، جبکہ وہ تندرست ( یعنی  شرعی طور پر ذہنی توازن درست ہو ) اور بالغ ہوں ( تو یہ بھی قابلِ عمل ہوگی ۔) ۔ ( الجوھرۃ النیرۃ ، کتاب الوصایا ، جلد 2 ، صفحہ 366 ، 367 ، مطبوعہ کراچی )

   بہارِ شریعت میں ہے : ’’ وصیّت کرنا ، جائز ہے ۔ قرآن کریم سے، حدیث شریف سے اور اجماع امت سے اس کی مشروعیت ( جائز ہونا ) ثابت ہے۔ حدیث شریف میں وصیت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ۔۔ وصیّت کرنا مستحب ہے جب کہ ا س پر حقوق اﷲکی ادائیگی باقی نہ ہو ۔ مستحب یہ ہے کہ انسان اپنے تہائی مال سے کم میں وصیّت کرے خواہ ورثاء مالدار ہوں یا فقراء۔جس کے پاس مال تھوڑا ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ وصیّت نہ کرے ، جبکہ اس کے وارث موجود ہوں اور جس شخص کے پاس کثیر مال ہو ، اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ اپنے ثلث مال ( یعنی ایک تہائی ۔ 3/1 ) سے زیادہ کی وصیّت نہ کرے۔ملخصاً ‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 19 ، جلد 3 ، صفحہ 937 ،  938 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   تہائی سے زیادہ وصیت سے متعلق اسی میں ہے : ’’ وصیّت ثلث مال سے زیادہ کی جائز نہیں ، مگر یہ کہ وارث اگر بالغ ہیں اور نابالغ یا مجنون نہیں اور وہ موصِی(وصیت کرنے والے )کی موت کے بعد ثلث مال سے زائد کی وصیّت جائز کردیں، تو صحیح ہے۔ موصی کی زندگی میں اگر وارثوں نے اجازت دی تو اس کا اعتبار نہیں۔ موصی کی موت کے بعد اجازت معتبر ہے۔ملخصاً ‘‘( مزید وارث کے لیے وصیت سے متعلق اسی میں ہے : ) ’’ احناف کے نزدیک وارث کے لئے وصیّت جائز نہیں ، مگر اس صورت میں جائز ہے کہ وارث اس کی اجازت دے دیں اوریہ اجازت موصِی کی حیات میں معتبر نہیں ، یہاں تک کہ اگر وارثوں نے موصی کی حیات میں اجازت دی تھی ، پھر بھی انھیں موصِی کی موت کے بعد رجوع کرلینے کا حق ہے۔‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 19 ، جلد 3 ، صفحہ 938 ، 939 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   نوٹ : کسی شخص نے وصیت کی ہو یا کرنی ہو ، اس کی مکمل معلومات فراہم کر کے خاص اپنے مسئلے سے متعلق رہنمائی حاصل کر سکتا ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم