Walid Ki Zindagi Mein Faut Shuda Beti Ka Wirasat Mein Hissa

 

والد کی زندگی میں فوت شدہ بیٹی کا وراثت میں حصہ ہوگا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2667

تاریخ اجراء: 24صفر المظفر  1446ھ /30 اگست  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور ہماری ایک بہن کا انتقال بھی والد صاحب کی زندگی میں ہو گیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ والد صاحب کی وراثت میں ان کی زندگی میں فوت ہونے والی بیٹی اور اس کی اولاد کا حصہ ہو گا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب کی زندگی میں انتقال کر جانے والی ان کی بیٹی کا والد صاحب کی وراثت میں حصہ نہیں ہو گا ، کیونکہ  وارث بننے کے لیے یہ شرط ہے کہ مورث ( یعنی جس کی وراثت تقسیم ہونی ہے ، اس ) کے انتقال کے وقت وارث بننے والا شخص زندہ ہو ۔ یونہی والد صاحب کے انتقال کے وقت جب ان کے دوسرے بیٹے بیٹیاں زندہ تھے ، تو زندگی میں فوت ہونے والی بیٹی کی اولاد کا بھی اپنے نانا کی وراثت میں حصہ نہیں ہو گا ، کیونکہ بیٹی کی اولاد یعنی نواسے نواسیاں ذوی الارحام میں شامل ہیں اور کسی کے انتقال کے وقت اس کے ورثا میں اگر کوئی عصبہ جیسا کہ بیٹا یا ایسا ذی فرض رشتہ دار موجود ہو ، جس پر ترکہ لوٹایا جاتا ہے ، تو ذوی الارحام وارث نہیں بنتے، البتہ بالغ ورثا اپنی رضا مندی سے بطورِ تبرع و احسان مرحومہ بہن کی اولاد کو کچھ دینا چاہیں ، تو یہ بہت بہتر ہے ، کیونکہ یہ صلۂ رحمی اور عظیم اجر و ثواب کا کام ہے ۔

   وراثت کی شرائط کے متعلق مجمع الانہر میں ہے : ”و شرطہ ھو حیات الوارث بعد الموت “ ترجمہ : اور وارث ہونے کی شرط  (مورث کی) موت کے بعد وارث کا زندہ ہونا ہے ۔ (مجمع الانھر  ،  ج4  ، ص528  ،  مطبوعہ  کوئٹہ)

   ذوی الارحام کے وارث بننے کے متعلق فتاوٰی عالمگیری میں ہے : ”و انما یرث ذوو الارحام اذا لم یکن احد من اصحاب الفرائض ممن یرد علیہ و لم یکن عصبۃ “ ترجمہ : اور ذو الارحام اسی صورت میں وارث ہوں گے جب اصحابِ فرائض میں سے ایسا کوئی فرد موجود نہ ہو جس پر ترکہ لَوٹایا جاتا ہے اور کوئی عصبہ بھی موجود نہ ہو ۔ (فتاوٰی عالمگیری ، ج6 ، ص459 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   بیٹی کی اولاد کے ذوی الارحام میں سے ہونے کے متعلق علمِ میراث کی کتاب السراجی میں ہے : ”و ذوو الارحام اصناف اربعۃ ، الصنف الاول ینتمی الی المیت و ھم اولاد البنات “ ترجمہ : اور ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں ، پہلی  قسم میت کی طرف منسوب ہوتی ہے اور وہ بیٹیوں کی اولاد ہے ۔(السراجی ، ص56 ، مطبوعہ لاھور)

   جو لوگ دوسرے کی وجہ سے وارث نہ بن رہے ہوں ، ان کے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:﴿وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنُ فَارْزُقُوۡہُمۡ مِّنْہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوۡفًا ترجمۂ کنز الایمان : ”پھر ( وراثت )بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں ، تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو ۔ “( پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 8)

   اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِ نعیمی میں ہے : ”جو رشتہ دار میراث سے محروم ہوگئے ہوں ، انہیں بھی میراث سے کچھ دے دینا علی الحساب بہتر ہے ، باقی بچا ہوا مال وارثین آپس میں تقسیم کر لیں ، یہ بھی فَارْزُقُوۡہُمۡ سے معلوم ہوا ۔ لہٰذا یتیم نواسا ، یتیم بھتیجا وغیرہ جبکہ اس میراث سے محروم ہوگیا ہو ، اسے کچھ ضرور دیں مگر خیال رہے کہ غائب ، دیوانے ، نابالغ وارثوں کا حصہ پہلے الگ کر لیں ۔۔۔۔۔ فَارْزُقُوۡہُمۡ امر ہے ، مگر استحباب کے لیے۔  ملخصا“(تفسیرِ نعیمی ، ج4 ، ص493 ، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم