Waldain Ki Zindagi Mein Hissa Muaf Karne ke Bad Wirasat Ka Hukum

والدین کی زندگی میں اپنا حصہ معاف کرنے کے بعد وراثت کا حکم

مجیب:مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3236

تاریخ اجراء:22ربیع الثانی1446ھ/26اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک اسلامی بہن کی والدہ نے اپنے بچوں میں اپنی  جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہی،تو اس کی ایک بیٹی نے  اپنا حصہ  لینے سے انکار کردیا۔ ماں نے بقیہ اولاد میں جائیداد تقسیم کردی۔اب والدہ کا انتقال ہوگیا  تو ان کی کچھ رقم بینک میں ہے۔اب کیا بیٹی اس میں سے حصہ لے سکتی ہے؟کیونکہ اس نے تو  والدہ کی زندگی میں انکار کردیا تھا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں والدہ کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کرنا جائز ہےجبکہ مرض الموت میں نہ دیاہو لیکن اس کا یہ تقسیم کرنا بطور  وراثت نہیں  تھا، کہ وراثت کا  تعلق مرنے کے ساتھ ہے۔بلکہ یہ بطور تحفہ تھا  جیسے کوئی اپنا مال خوشی سے کسی کو دے دیتا ہے۔ تو جس جس نے اپنے حصے پر قبضہ کاملہ کر لیا  تھا(یعنی  اس طرح قبضہ کیاکہ مشاع وغیرہ کوئی ایسی صورت نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے قبضہ درست نہ ہوتاہوتو) وہ اس کا مالک بن گیا اور جس نے والدہ کی وفات سے پہلے قبضہ نہیں کیا  تھایاقبضہ توکیالیکن مشاع وغیرہ کوئی ایسی صورت تھی کہ اس کاقبضہ شرعادرست نہ ہوتاہوتو اس کا وہ حصہ والدہ کی وفات کے بعد مال وراثت بنے گا  کیونکہ ہبہ  مکمل ہونے کے لیے قبضہ کاملہ شرط ہے۔ جب قبضہ کاملہ نہیں کیا تو وہ چیز واہب(ہبہ کرنے والے) کی ملک پر باقی رہی۔اب والدہ کی وفات کے بعد اس کا جو بھی ترکہ ہے وہ مال وراثت بن جائے گا اور سب ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔بیٹی بھی وارث ہے،لہذا اس کا جو حصہ بنتا ہے اسے ضرور دیا جائے گا۔والدہ کی زندگی میں  جو انکار کیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

   ردا لمحتار علی الدر المختار میں ہے:”أن یفعل المالک ما بدا لہ مطلقا لأنہ متصرف فی خالص ملکہ“ ترجمہ:مالک اپنی ملکیت میں مطلقاً  جو چاہے تصرف کرے،کیونکہ وہ اپنی خالص ملک میں تصرف کررہا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب القضاء،ج5،ص448،دار الفکر،بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:”وأما الإرث فحکم یثبت بعد الموت“ ترجمہ:بہرحال وراثت تو یہ ایسا حکم ہے جو موت کے بعدثابت ہوتاہے۔(تبیین الحقائق،ج5،ص28،مطبوعہ قاھرۃ)

   ہبہ تام ہونے سے پہلے واہب یا موہوب لہ میں سے کسی ایک انتقال ہوجائے تو ہبہ باطل ہو جاتا ہے ۔اس سے متعلق تنویراوردرمختارمیں ہے''(موت احدالعاقدین)بعدالتسلیم فلوقبلہ بطل''یعنی فریقین(واہب اور موہوب لہ) میں سے کسی ایک موت موہوبہ چیزسپرد کرنے کے بعدہوتو یہ(رجوع سے مانع ہے)اور اگر سپرد کرنے سے پہلے ہوتو ہبہ باطل ہے۔

   ''بطل''کے تحت ردالمحتارمیں ہے”یعنی عقدالھبۃلانتقال الملک للوارث قبل تمام الھبۃ“ترجمہ:عقد ہبہ باطل ہو گیا کیونکہ ہبہ مکمل ہونے سے پہلے ملکیت وارث کی طرف منتقل ہو گئی۔(ردالمحتار علی الدر المختار،ج8، ص590،591،مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”شے مشترکہ صالح تقسیم کا ہبہ قبل تقسیم ہر گز صحیح نہیں اور اگر یوں ہی مشاعا یعنی بے تقسیم موہوب لہ کو قبضہ بھی دے دیا جائے تاہم وہ شی بدستور ملک واہب پر رہتی ہے موہوب لہ کا اصلا کوئی استحقاق اس میں ثابت نہیں ہوتا، نہ وہ ہر گز بذریعہ ہبہ اس کا مالک ہوسکے جب تک واہب تقسیم کرکے خاص جزء موہوب معین محدود وممتاز جداگانہ پر قبضہ کاملہ نہ دے، یہاں تک کہ ایسے قبضہ ناقصہ کے بعد بھی اگر موہوب لہ اس شی میں بیع وغیرہ کوئی تصرف کرے محض باطل وناقابل نفاذ ہے اور واہب کے سب تصرفات جیسے قبل ہبہ نافذ تھے اب بھی بدستور تام ونافذ ہیں۔ یہی حق وصحیح معتمد ہے اور اسی پر تعویل واعتماد لازم۔(فتاوی رضویہ،ج19، ص207 ،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ مزید فرماتے ہيں:”حیات مورث میں ورثاء اس کی جائدادکے مالک نہیں ہوجاتے۔۔۔ ہرشخص اپنی صحت میں اپنے مال کامختارہے اگرکسی اجنبی کودے دے توکون ہاتھ روک سکتاہے۔“(فتاوی رضویہ، ج 19، ص238، رضا فاؤ نڈ یشن، لاہور)

   آپ علیہ الرحمۃ مزید فرماتے ہیں:”اِرث(یعنی وارث ہونا)جبری(لازمی)ہے کہ موت ِمورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصہ شرعی کامالک ہوتاہے، مانگے خواہ نہ مانگے، لے یانہ لے، دینے کاعرف ہویانہ ہو، اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے؛کتنے ہی اشتراک دراشتراک کی نوبت آئے؛ اصلاکوئی بات میراث ِثابت کوساقط نہ کرے گی؛ نہ کوئی عرف فرائض اﷲ کوتغیرکرسکتاہے، یہاں تک کہ نہ مانگنا درکنار اگر وارث صراحۃکہہ دے کہ میں نے اپناحصہ چھوڑ دیا، جب بھی اس کی ملک زائل نہ ہوگی۔(فتاوی رضویہ،ج26، ص113،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم