Nana ki Property Mein Nawason ka Hissa?

والدہ کا انتقال  نانا سے پہلے ہوا، تو نانا کی جائیداد میں نواسوں کا کوئی حصہ ہے؟

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1867

تاریخ اجراء:23صفر المظفر1446ھ/29اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میری والدہ کا انتقال ہمارے نانا جان سے پہلے ہو چُکا تھا اور ہمارے نانا کا انتقال ابھی ہوا ہے جن کے دیگربیٹے بیٹیاں موجود ہیں،ہم کل چھ بہن بھائی ہیں، کیا ہم اپنے نانا جان کی وراثت میں حصہ دار ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ کی والدہ اپنے والدیعنی آپ کے نانا کی وراثت میں حقدار نہیں ہوں گی۔ کیونکہ وارث ہونے کے لئے مورث کی موت کے وقت وارث کا زندہ موجود ہونا حقیقی طور پر یا حکمی طور پر شرط ہے،اسی طرح آپ بہن بھائیوں کا بھی ناناکی وراثت میں کوئی حصہ نہیں۔

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ وراثت  ملنےکی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”وجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل“ یعنی مورث کی موت کے وقت وارث زندہ ہو حقیقۃزندہ ہو یا تقدیراًجیسے حمل ہو۔(ردالمحتار ،جلد10،صفحہ525، مطبوعہ:کوئٹہ)

   البتہ بہتر یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کاری کے وقت موجودعاقل بالغ ورثاء اپنے اپنےحصوں میں سے اپنی بہن کےبچوں کو کچھ نہ کچھ دیں کہ اس سے اُن کادل بھی خوش ہوگااورصدقہ و صلہ رحمی کا ثواب بھی ملے گا اور ہمارے پروردگار عزوجل نے اس کی ترغیب بھی دلائی ہے۔یہ حکم وجوبی نہیں استحبابی ہے۔

   اللہ عزوجل نے قرآنِ کریم میں ارشادفرمایا:”وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا“ ترجمۂ کنزالایمان: پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو۔(پارہ4، سورۃالنساء،آیت8)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم