Qaza Namazon aur Rozon ka Fidya Dene ki Wasiyat

قضا نمازوں اور روزوں کے فدیہ دینے کی وصیت کا حکم

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-3344

تاریخ اجراء:06جمادی الاخریٰ1446ھ/09دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی نے قضا نمازوں اور قضا روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو،تو کیا پہلے  اس کے تہائی مال سے اس کی وصیت کو پورا کیا جائےگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کے مال  سے سب سے پہلے میت کے کفن،دفن کے معاملات کرنااورپھراس کے ذمہ قرض ہوتواس کی ادائیگی کرنا اور پھر اگر اس نے کوئی جائزوصیت کی ہوتوشرعی حدمیں رہتے ہو ئے اس وصیت کوپوراکرناہوتاہے اور اس کے بعدجوبچے وہ ورثا میں تقسیم ہوتا ہے۔لہذاکفن دفن کے معاملات کرنے اورقرض ہوتواس کی ادائیگی کرنے کے بعد،صورت مسئولہ میں بیان کردہ وصیت کوتہائی مال سے پوراکیاجائے گا۔اوراگر فدیہ تہائی مال سے پورانہ ہوتا ہوتواس صورت میں اگرتمام ورثاء  عاقل بالغ ہوں،تو ان کی اجازت کے ساتھ تہائی سےزیادہ  مال میں بھی وصیت کو نافذ کیا جا سکتا ہے،اوراگرعاقل بالغ ورثاء میں سےبعض اس کی اجازت دیں بعض انکار کر دیں،تو جو اجازت دیں گے، ان کے حصے سے تہائی سے زیادہ میں وصیت کونافذکیاجائے گا،اور جو اجازت نہیں دیں گے،ان کے حصے سے تہائی سے زیادہ میں وصیت نافذ نہیں کی جاسکے گی۔

   جوہرہ نیرہ میں ہےوإذا مات من عليه زكاة أو فطرة أو كفارة أو نذر أو حج أو صيام أو صلوات ولم يوص بذلك لم تؤخذ من تركته عندنا إلا أن يتبرع ورثته بذلك وهم من أهل التبرع فإن امتنعوا لم يجبروا عليه وإن أوصى بذلك يجوز وينفذ من ثلث مالہ“ترجمہ:اورجب کوئی شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے زکوٰۃ، فطرہ، کفارہ، منت،حج،روزوں،یا نمازوں کی ادائیگی باقی ہو اور اس نے مرنے سے پہلے ان کے متعلق وصیت بھی نہ کی ہو تو ہمارے نزدیک اس کے ترکہ میں سے ان کی ادائیگی نہیں کی جائے گی،ہاں اگر ورثاء بطورِ احسان ادا ئیگی کریں اور وہ تبرع کے اہل بھی ہوں تو حرج نہیں اور اگر نہ کریں تو ان پر کوئی جبر نہیں،اور اگر فوت ہونے والے نے ان کے متعلق ادائیگی کی وصیت کی تھی تو درست ہے اوراس کے ترکہ میں سے تہائی مال میں اس کی وصیت نافذ ہوگی۔(الجوھرۃ النیرۃ،ج1،ص135،المطبعة الخيرية)

   بہارِ شریعت میں ہے”اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مر گئے،اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں پھر بھی وصیّت کی تو تہائی مال میں جاری ہوگی اور اگر اتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھ لیتے،مگر نہ رکھے تو وصیّت کرجانا واجب ہے اور عمداً نہ رکھے ہوں تو بدرجہ اَولیٰ وصیّت کرنا واجب ہے اور وصیّت نہ کی،بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔“ہارشریعت،ج01،حصہ5،ص1005، مکتبہ المدینۃ، کراچی)

   تہائی مال سے زیادہ میں  وصیت کے نفاذ کے متعلق الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثةيعني بعد موته وهم أصحاء بالغونترجمہ:اور ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت درست نہیں،مگر یہ کہ وصیت کرنے والےکی وفات کے بعد ورثاء اس کی اجازت دے دیں،جبکہ وہ صحیح اور بالغ ہوں۔(الجوھرۃالنیرۃ، ج2،ص287،288،المطبعة الخيرية(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم