وراثت کی کرائے پر دی ہوئی مشترکہ دکانوں میں بہنوں کا حق؟ |
مجیب:مولانا شفیق صاحب زید مجدہ |
مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Aqs 1624 |
تاریخ اجراء:03ذیقعدۃالحرام1440ھ/07جولائی2019ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب کا
انتقال ہوگیا ہے ، والد صاحب کی جائیداد ،دکانیں وغیرہ
کسی کی تقسیم نہیں ہوئی ، سب کچھ بھائیوں
کے قبضے میں ہے اور بہنوں کے مطالبے پر بھی ان کا حصہ انہیں
نہیں دے رہے ۔اب بھائیوں نےبہنوں کی اجازت کے بغیر
اپنی مرضی سے کچھ دکانیں کرایہ پر دے دی ہیں
،توان دکانوں سے آنے والے کرائے پر کس کا حق ہے ؟ بہنیں مطالبہ
کرسکتی ہیں یا نہیں ؟برائے کرم تفصیل سے رہنمائی
فرما دیں ۔ نوٹ:تمام ورثاء عاقل بالغ ہیں ۔ نیز اگر بہنیں اب اجازت دے دیں ، پھر کیا حکم ہوگا ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
شریعت مطہر ہ نے وراثت میں بہن بھائیوں کا حصہ مقرر فرمایا
ہے ۔ بھائیوں کا جائیداد پر قبضہ کرلینا اور بہنوں کو
حصہ نہ دینا ،ناجائز وحرام ہے ۔ ایسے بھائیوں پر لازم
ہے کہ دیگر ورثاء ،بہنوں وغیرہ کو ان کا مکمل حصہ دیں اور
توبہ بھی کریں ۔ میراث کے
متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :﴿ یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ
اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ
﴾
ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری
اولاد کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔ (پارہ4،سورۃالنساء،آیت11) کسی وارث کی میراث نہ دینے سے
متعلق حدیث پاک میں ہے:”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من
الجنة يوم القيامة“ترجمہ:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث
دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث
قطع فرما دے گا۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،ص194،مطبوعہ کراچی) کرائے کے متعلق یہ حکم ہے کہ ورثاء کی رضا
مندی کے بغیر جن بھائیوں نے وہ دکانیں کرائے پر دیں
، ان سے حاصل ہونے والے کرائے کے وہی مالک ہیں ، کیونکہ
دکانوں کو جنہوں نے کرائے پر دینے کا عقد کیا ، وہی کرائے کے
مالک ٹھہریں گے ۔ بہنوں کو اس کرائے کے مطالبے کا حق نہیں
ہے ، ہاں جتنا کرایہ بھائیوں کے اپنے حصے کے بدلے میں آتا
ہے ، وہ ان کے لیے جائز ہے اور دوسروں کے حصے کا کرایہ ان کے حق میں
ملک خبیث یعنی ناپاک و حرام ہے ، جس کا حکم یہ ہے
کہ یا تو فقیرِ شرعی پر بغیر ثواب کی نیت
کے صدقہ کر دیں یا ورثاء کو دے دیں اور ورثاء کو دینا
افضل ہے۔ مالِ مغصوبہ سے حاصل شدہ نفع اصل مالک کا نہیں
ہوتا ، بلکہ غاصب کا ہی ہوتا ہے ۔ جیسا کہ رد المحتار میں
ہے :” أن الغلة للغاصب عندنا؛
لأن المنافع لا تتقوم إلا بالعقد والعاقد هو الغاصب فكان هو أولى ببدلها، ويؤمر
أن يتصدق بها لاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير“ ترجمہ:( غصب کی ہوئی
چیز سے حاصل شدہ ) نفع ہمارے نزدیک غاصب کا ہی ہوگا ، کیونکہ
منافع عقد کے ساتھ ہی قائم ہوتے ہیں اور عقد کرنے والا ( یہاں
) وہی غاصب ہے ، تو اس کے بدل کا زیادہ حقدار بھی وہی ہوگا
، ( ہاں ) اسے وہ نفع صدقہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ، اس لیے کہ وہ
اس کو خبیث بدل کے ذریعے حاصل ہوا ہے اور وہ ( خبیث بدل ) غیر
کے مال میں تصرف کرنا ہے ۔ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الغصب ، جلد 9 ، صفحہ 317 ،
مطبوعہ کوئٹہ ) اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ
الرحمۃ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
:’’ عمارت بعد انتقال خالد زید اور دیگر ورثاء میں مشترکہ
ٹھہرے گی ، مگر آمدنی جو زید وسلیمہ نے حاصل کی
باقی شرکاء اس کے واپس لینے کا دعویٰ نہیں کرسکتے
کہ عقد اجارہ میں جو شخص کسی شیء کو کرایہ پر چلاتاہے ،
اجرت کا مالک وہی ہوتا ہے اگرچہ وہ شے ملک غیر ہی ہو، ہاں اس
پر دو باتوں میں سے ایک واجب ہوتی ہے یا تو ملک غیر
کی اُجرت اس مالک کو واپس دے اور یہی بہتر ہے یا
محتاجوں پر تصدق کردے کہ اس کے حق میں وہ ملک خبیث ہے۔“ (فتاوی رضویہ،ج19،ص259، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) مزید ایک مقام پر مشترکہ مال سے اجازت کے بغیر
ملنے والے نفع سے متعلق فرماتے ہیں:” جبکہ نہ ان لڑکیوں نے اپناحصہ
مانگا نہ لڑکوں نے دیا اوربطور خود اس میں تجارت کرتے رہے تو وہ
چاروں لڑکیاں اصل متروکہ میں اپناحصہ طلب کرسکتی ہیں ،
تجارت سے جونفع ہوا ، وہ لڑکیاں اس کی مالک نہیں، ہاں ان کے
حصہ پرجونفع ہوا لڑکوں کے لئے ملک خبیث ہے لڑکوں کوجائزنہیں کہ اسے
اپنے تصرف میں لائیں، ان پرواجب ہے کہ یاتووہ نفع فقراء مسلمین
پرتصدق کریں یاچاروں لڑکیوں کو دے دیں اوریہی
بوجوہ افضل واولیٰ ہے اوران لڑکیوں کے لئے حلال طیب ہے
کہ انہیں کی ملک کانفع ہے جبکہ لڑکوں پرشرعاً حرام ہے کہ ان لڑکیوں
کے حصہ کانفع اپنے صرف میں لائیں تولڑکیوں ہی کوکیوں
نہ دیں کہ ان کی دلجوئی ہو ، صلہ رحم ہو ، صاحب حق کی
ملک کانفع اسی کوپہنچے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم “ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 26 ، صفحہ 373 ، رضا فاؤنڈیشن
، لاھور ) اب اگر بہنیں اجازت دے دیں ، تو پھر وہ بھی
ان بھائیوں کے ساتھ کرائے میں شامل ہوجائیں گی اور
کرائے میں سے ان کو حصہ دینا لازم ہوجائے گا ،نہ دیا ، تو وہ
اس کا مطالبہ کر سکتی ہیں ، کیونکہ عقدِاجارہ وقتاً فوقتاً نیا
ہوتا رہتا ہے ، تو جب ان کی طرف سے اجازت شامل ہوگی ، تو اپنے حصے
کے نفع کی وہ حقدار ٹھہریں گی ، لہٰذا اجازت دینے
والا ہر وارث اپنے حصے کے مطابق کل کرایہ کا حقدار ہوگا ۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ
الرحمۃ عقدِ اجارہ کے فوقتاً فوقتاً نئے ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:”عقد
اجارہ وقتاً فوقتاً نیاہوتا ہے کہ منفعت بتدریج پیداہوتی
ہے ۔ اسی تدریج سے اجارہ تجدید پاتا ہے۔ بدائع میں
ہے:” الطاری فی
باب الاجارۃ مقارن لان المعقود علیہ المنفعۃ وانھا تحدث شیئا
فشیئا فکان کل جزء یحدث معقودا علیہ مبتدأ“( ترجمہ: ) اجارہ کے باب میں
مقارنت طاری ہوتی ہے کیونکہ اس میں معقود علیہ
منفعت ہوتی ہے اور وہ وقتاً فوقتاً بتدریج پیداہوتی رہتی
ہے، چنانچہ منفعت کی ہرجزجوپیداہوتی ہے، وہ نئے سرے سے معقود
علیہ بنتی ہے ۔ ہدایہ میں ہے:” الاجارۃ تنعقد ساعۃ فساعۃ
حسب حدوث المنفعۃ“( ترجمہ : )اجارہ وقتاً فوقتاً منفعت کے پیداہونے کے مطابق منعقد
ہوتاہے۔“ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 25 ، صفحہ 289 ، رضا فاؤنڈیشن
، لاھور ) ایک شریک دوسرے کی اجازت کے بغیر
مالِ مشترک کرایہ پر دے دے اور دوسرا بعد میں اجازت دے دے ، تو اس
کے متعلق درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے : ” توجد أربع صور في إيجار المال المشترك
: الصورة الأولى - أن يؤجر الملك المشترك بلا إذن الشريك وينقضي جميع مدة
الإيجار الصورة الثانية - أن يؤجر الملك المشترك بلا إذن الشريك وينقضي
ثلث مدة الإجارة الصورة الثالثة - أن يؤجر المال المشترك بلا إذن الشريك
ويجيز الشريك الآخر تلك الإجارة قبل انقضاء أي مدة من مدة الإجارة . الصورة
الرابعة - أن يؤجر المال المشترك بلا إذن الشريك وبعد انقضاء ثلث مدة الإجارة
يجيز الشريك الآخر الإجارة في المدة الباقية أي في الثلثين , ففي الصورة الثالثة
يلزم إعطاء حصة الشريك الغير المؤجر من بدل الإجارة أي كل حصته في الصورة
الثالثة . وحصته عن المدة الباقية في الصورة الرابعة “ ترجمہ:مالِ مشترک کو کرائے پر دینے
کی چار صورتیں ہیں ۔ (1)شریک کی اجازت کے
بغیر ملکِ مشترک کرائے پر دی جائے اور کرائے کی تمام مدت گزر
جائے ۔ (2)ملکِ مشترک شریک کی اجازت کے بغیر کرائے پر دی
جائے اور کرائے کی تہائی مدت گزر جائے ۔ (3)شریک کی
اجازت کے بغیر مالِ مشترک کرائے پر دیا جائے اور دوسرا شریک
اس کرائے کی کچھ بھی مدت گزرنے سے پہلے اس کی اجازت دے دے ۔
(4)شریک کی اجازت کے بغیر مالِ مشترک کرائے پر دے دیا
اور دوسرے شریک نے باقی یعنی دو تہائی مدت میں
اس کی اجازت دے دی ۔تیسری صورت میں ہر اس
شریک کا حصہ ، جس نے کرائے پر نہیں دیا تھا ، ( اس کو اس کا )
حصہ کرایہ میں سے دینا لازم ہوگا ۔ یعنی تیسری
صورت میں پورا حصہ اور چوتھی صورت میں باقی مدت کا حصہ
دینا لازم ہوگا ۔ ( درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام ، الکتاب العاشر الشرکات ، المادۃ 1077 ، جلد 3 ، صفحہ 29 ، 30 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟