Marhoom Bhai Ki Beti Ko Walida Ki Wirasat Se Hissa Dena

 

مرحوم بھائی کی بیٹی کو والدہ کی وراثت سے حصہ دینا

مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1705

تاریخ اجراء:12ذوالقعدۃالحرام1445 ھ/21مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس کی ایک بیٹی ہے ، بھائی کے انتقال کے بعد ہماری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے، اب والدہ کی وراثت تقسیم کرنی ہے، اس میں پہلے فوت ہوجانے والےبھائی کا  شرعاً حصہ تو نہیں بنتا، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہم تمام ورثا بخوشی بھائی کی بیٹی کو بھائی کی جگہ اس وراثت میں شریک کرلیں کہ اگر بھائی حیات ہوتے، تو ان کا بھی حصہ ہوتا،تو کیا اس طرح غیر وارث کو بخوشی حصہ دینا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی و رضامندی سے اپنے مرحوم بھائی  کی اولاد کو بھی کچھ نہ کچھ دینا چاہیں تو یہ بالکل جائز بلکہ کار ثواب ہے، کہ اس میں صلہ رحمی اور حسنِ سلوک پایا جاتا ہے، البتہ اگر کوئی  نابالغ وارث ہے تو وہ  اپنے حصے میں سے انہیں نہیں دے سکتا۔ 

   اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا:”وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنُ فَارْزُقُوۡہُمۡ مِّنْہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوۡفًا“ترجمۂ کنز الایمان: پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو۔(پارہ4،سورۃالنساء،آیت8)

   اس آیت کے تحت مفتی احمد یا رخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی مایہ ناز تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں:”اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ چچا کی وجہ سے دادا کی میراث سے پوتا محروم ہوگیاتو دادا کو چاہئے کہ اسے وصیت کرکے مال کا مستحق بنا جاوے اور اگر دادا نے ایسا نہ کیا تو وارثوں کو چاہئے اپنے حصے میں سے اسے کچھ دے دیں،اس میں مسلمانوں نے بہت سستی کی ہے مگر خیال رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصے میں سے نہ دیا جائے۔“(تفسیر نور العرفان، صفحہ 123،پیر بھائی کمپنی لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم