Kya Soodi Raqam Mein Wirasat Jari Hogi?

 

کیا سودی رقم میں وراثت جاری ہوگی؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13533

تاریخ اجراء:22ربیع الاول1446ھ/27ستمبر  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ وراثت میں کچھ معینہ سودی  رقم بھی موجود ہےکہ  جو مرحوم نے سود کی مد میں وصول کی تھی، کیا اُس سودی رقم میں وراثت جاری ہوگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں وہ معینہ سودی رقم ورثاء کے لیے حلال نہیں، اور نہ ہی اُس رقم میں وراثت جاری ہوگی۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ سود کا لین دین سخت ناجائز و حرام ہے، اس کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ البتہ سودی رقم پر قبضہ کرلینے سے خبیث ملکیت حاصل ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سودی رقم مالک ہی کو لوٹانا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ کسی بھی طریقے سے، خواہ مالک کو وہ رقم لوٹا کر یا پھر ابتداءً ہی کسی شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ پر وہ رقم صدقہ کرکے،  اُس حرام رقم سے خلاصی حاصل کرنا شرعاً لازم و ضروری ہوتا ہے ۔

   یاد رہے کہ مورث (یعنی اصل مالک) کے فوت ہوتے ہی وارث کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں وہ معینہ سودی رقم بھی ورثاء کی ملکیت میں آچکی ہے، لیکن وارث کو اگر معلوم ہو کہ بعینہ یہ رقم مورث نے حرام ذریعے سے حاصل کی تھی،  تو اس صورت میں وہ معینہ حرام رقم وارث کے لیے بھی حلال نہیں ہوتی بلکہ  اُسے صدقہ کرنےکا حکم ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں ورثاء کو اختیار ہے کہ چاہیں تو وہ سودی رقم مالکوں کو واپس کردیں یا پھر ابتداءً ہی کسی شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ پر  ثوا ب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں، بہر صورت اُس حرام رقم سے خُلاصی حاصل ہوجائے گی۔

   مورث کے فوت ہوتے ہی مالِ وراثت میں وارث کی ملکیت ثابت ہونے کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:” ارث جبری ہے کہ موتِ مورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصۂ شرعی کامالک ہوتا ہے  مانگے خواہ نہ مانگے، لے یا نہ لے، دینے کاعرف ہویا نہ ہو، اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے ، کتنے ہی اشتراک در اشتراک کی نوبت آئے،   اصلاً کوئی بات میراثِ ثابت کو ساقط نہ کرے گی۔(فتاوٰی رضویہ، ج26، ص113، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا”اگرشخصے معاملہ سودنمودہ اموال کثیرہ فراہم نمایند پس رحلت ازدارِ دنیا بدار آخرت اموالیکہ ازمعاملہ جمع شدہ برائے وارثان وغیرہ جائزوحلال باشد یانہ؟ (ایک شخص نے سُودی لین دین کرکے بہت سامال اکٹھا کیا پھر انتقال کرگیا تو  جمع شدہ مال  اس کے وارثوں وغیرہ کے لئے جائز اور حلال ہے یانہیں؟ )“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ”اگروارثان دانند کہ ازفلاں فلاں کس ایں قدر رباگرفتہ است واجب ست کہ بآنہا واپس دہند اگرایشاں نماندہ باشند بوارثان ایشاں رسانند۔  اگروارثان ہم نیابندیا ازسرفلاں فلاں راندانستہ باشند مگرعین اموال ربا معلوم ومعین است آں اموال رابر فقراء تصدّق کنند واگرہیچ درعلم ایشاں نیست جزاینکہ ربامی گرفت ترکہ مراینہا را حلال است فی ردالمحتار الحاصل انہ ان علم ارباب الاموال ۔۔۔الخ (اگرورثاء جانتے ہیں کہ اس قدرمال فلاں فلاں سے بطور سود لیا تھا  تو ضروری ہےکہ ان کے مالکوں کو واپس کردیں لیکن اگر وہ مالکان وفات پاچکے ہوں تو ان کے ورثاء کو لوٹادیں۔  اگرورثاء موجود ہی نہ ہوں یا ان کی تفصیل معلوم نہ ہو سکے اور سودی رقم  معلوم و معین ہو تو اس مال معینہ کو فقراء ومساکین میں تقسیم کردیں۔ اگرمذکورہ امور میں سے کوئی بات ان کے علم میں نہ ہو تو ایسی صورتحال میں ورثاء کے لئے میت کاترکہ حلا ل ہے۔ چنانچہ فتاوٰی شامی میں ہے خلاصہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔الخ) ۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج23،ص550، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”وارث کو اگر معلوم ہوکہ اس کے مورث نے فلاں فلاں شخص سے اتنا اتنا حرام لیا تھا تو انہیں پہنچا دے اور اگر سب معلوم ہو کہ بعینہ یہ روپیہ جو اس صندوق یا اس تھیلی میں ہے خالص مال حرام ہے تو اسے فقراء پر تصدق کردے۔(فتاوٰی رضویہ، ج17، ص379، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سودی رقم مالک کو ہی لوٹانا ضروری نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”جو مال رشوت یا تَغَنِّی(یعنی گانے )یا چوری سے حاصل ہوا اس پر فرض ہے کہ جس جس سے لیا ان پر واپس کر دے ، وہ نہ رہے ہوں  ان کے وُرثہ کو دے ، پتا نہ چلے تو فقیروں  پر تصدُّق کرے ۔ خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کا لگانا حرامِ قطعی ہے بِغیر صورتِ مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وَبال سے سُبکدَوشی کا نہیں یہی حکم سُود وغیرہ عُقُودِ فاسِدہ کا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بِالخصوص انہیں واپَس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ(جس سے لیا ہے )اسے واپَس دے خواہ ابتِداء ً  تصدُّق(یعنی خیرات) کر دے۔ وذٰلک لان الحرمۃ فی الرشوۃ وامثالھا لعدم الملک اصلا فھو عندہ کالمغصوب فیجب الرد علی المالک او ورثتہ ما امکن اما فی الربٰو اواشباھہ فلفساد الملک وخبثہ و اذا قدملکہ بالقبض ملکا خبیثا لم یبق مملوک الماخوذ منہ لاستحالۃ اجتماع ملکین علی شیئ واحد فلم یجب الرد وانما وجب الانخلاع عنہ اما بالرد واما بالتصدق کما ھو سبیل سائر الاملاک الخبیثۃ۔(فتاوٰی رضویہ، ج23، ص552-551، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم