Khwaja Sara Kise Kehte Hain Aur Wirasat Mein Iske Hisse Ka Hukum

خنثٰی ( ہِجڑا/ خواجہ سرا )کسے کہتے ہیں اور وراثت میں اس کے حصے کا حکم ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-1014

تاریخ اجراء:15ذوالقعدۃ الحرام1444ھ/05جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ     میت  کے ترکہ سے مرد و عورت کا حصہ تو بیان کیا  جاتا ہے کہ مرد  کو   اتنا مخصوص حصہ ملے گا  اور عورت کو اتنا ،پوچھنا یہ ہے کہ    اگر کسی کی اولاد میں سے کوئی   خنثٰی  ہو،تو  کیا اس کو بھی   حصہ ملے گا یا نہیں ؟اگر ملے گا تو کتنا ملے گا ؟ نیز یہ فرمائیں کہ  شریعت میں  خنثٰی  کو پہچاننے کا کیا معیار ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی معیار کے مطابق جس پر خنثٰی مشکل کا اطلاق ہو جائے ،تو اس   پر جس طرح باقی  احکامِ دینیہ  لاگو   ہوتے ہیں، اسی طرح اس کو وراثت میں بھی  حصہ دیا جاتا ہے۔ وہ  اس طرح کہ   اسے مرد و عورت   تسلیم کر کے  دیکھا جائے گا کہ  دونوں صورتوں میں سےجس صورت  میں اسے  کم  حصہ ملتا ہے ، وہی حصہ دیا جائے گا ۔ مثلا :ً میت کی اولاد میں ایک بیٹا ،ایک بیٹی اور ایک خنثٰی ہے  ،تو خنثٰی  کو بیٹا   تسلیم کرنے کی صورت میں دوگنا ملے گا اور بیٹی تسلیم کرنے کی صورت میں ایک گنا ملے گا ،لہٰذا  اسے بیٹی تسلیم کر کے کم حصہ دیا جائے گا یا دو صورتوں میں سے جس  صورت میں اسے محروم رکھا جا سکتا  ہے ، وہی صورت  اختیار کی جائے گی۔مثلا ً    :میت کے ورثاء میں سے شوہر  ،ایک حقیقی بہن اور ایک باپ کی طرف سے خنثٰی اولاد ہے ، تو   خنثٰی کو باپ کی طرف سے  میت کی بہن تسلیم کیا جائے ،تو  ذوی الفروض ہونے کی وجہ سے اس   کو  مخصوص حصہ ملے گا اور اگر باپ کی طرف سے میت کا   بھائی تسلیم کیا جائے ،تو عصبہ ہونے کی بناء پر اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا ،لہٰذا  اسے باپ کی طرف سے میت کا بھائی تسلیم کر کے وراثت سے محروم رکھا جائے گا ۔

   نیز خنثٰی مشکل کی تعریف اور اس کی پہچان   کا شرعی معیار  مندرجہ ذیل ہے  :

   خنثٰی وہ فرد ہے جس میں مرد و عورت دونوں کے اعضاء ہوں یا دونوں میں سے کوئی عضو نہ ہو ۔ اگر دونوں عضو ہوں،تو  نابالغی کی حالت میں اس  پر  مرد یا عورت  کا حکم لگانے میں  پیشاب کرنے کے مقام کا اعتبار ہو گا  کہ وہ پیشاب کون سے عضو سے کرتا ہے ؟اگر مردانہ عضو سے پیشاب کرتا ہے تو مرد کا حکم ہے اور اگر زنانہ عضو سے پیشاب کرتا ہے ، تو عورت کا حکم ہے،کیونکہ یہ حدیث سے ثابت ہے  کہ خنثٰی  اسی جنس  کے حکم میں  ہے ،جس جنس کے مخصوص عضو سے پیشاب کرتا ہے     اور اگر دونوں سے پیشاب کرتا ہے ، تو یہ دیکھا جائے گاکہ  پہلے کون سے عضو سے  پیشاب کرتا ہے، جس عضو  سے پہلے پیشاب کرے گا ، اسی  جنس  کے  حکم میں  ہو گا اور اگر دونوں عضو سے ایک ساتھ پیشاب کرتا ہے، تو اس کو خنثیٰ مشکل کہتے ہیں یعنی اس کے مرد و عورت ہونے کا کچھ پتہ نہیں چلتا اور  بلوغت کی حالت میں  مردوں یا عورتوں کی علامات کا اعتبار کیا جائے گا ، چنانچہ اگر اس کی داڑھی نکل آئی یا   مَردوں کی طرح احتلام  ہوتا  ہے ، تو مرد کے حکم میں ہے اور اگر  اس کو ماہواری آئے یا حاملہ ہو جائے یا عورتوں کی طرح پستان ظاہر ہوں ، تو عورت  کے حکم میں ہے  اور اگر کوئی بھی علامت ظاہر نہ ہو  یا  دونوں جنس کی علامات پائی  جائیں، مثلا: ًاس میں مردوں والی علامت بھی پائی جائے  اور عورتوں والی بھی ،تو یہ خنثٰی مشکل ہو گا  ۔

   دلائل و جزئیات:

   شیخ علاء الدین محمد بن علی  حصکفی  حنفی رحمہ اللہ ( المتوفٰی 1088 ھ) فرماتے ہیں:”وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا“ترجمہ  :خنثٰی وہ فرد  ہے     جس میں عورت  و مرد دونوں کے اعضاء ہوں  یا اس میں دونوں اعضاء  نہ ہوں ۔)الدر المختار مع ردالمحتار ،جلد 10 ،کتاب الخنثٰی ،صفحہ 477 ،مطبوعہ  کوئٹہ(

   ملک العلماء امام علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمہ اللہ ( المتوفٰی 587 ھ) فرماتے ہیں:”وأما العلامة فی حالة الصغر فالمبال، لقوله عليه الصلاة والسلام :’’الخنثى من حيث يبول ‘‘ فإن كان يبول من مبال الذكور فهو ذكر، وإن كان يبول من مبال النساء فهو أنثى وإن كان يبول منهما جميعا يحكم السبق لأن سبق البول من أحدهما يدل على أنه هو المخرج الأصلی وأن الخروج من الآخر بطريق الانحراف عنه وإن كان لا يسبق أحدهما الآخر فتوقف أبو حنيفة  رضی اللہ عنه وقال: هو خنثى مشكل وهذا من كمال فقه أبی حنيفة  رضی اللہ عنه  ترجمہ : حالتِ صغر میں  (بلوغت سے پہلے) اس کی پہچان کی  علامت پیشاب کرنے کا مقام ہے ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان  ہے کہ خنثٰی ( اسی جنس  کے حکم میں  ہے) جس( جنس کے مخصوص عضو ) سے پیشاب کرتا ہے، اگر وہ  مردانہ عضو سے پیشاب کرتا ہے ،تو مرد کے حکم میں  ہے اور اگر زنانہ عضو سے پیشاب کرتا ہے ،تو عورت کے حکم میں  ہے اور اگر دونوں سے  اکٹھے پیشاب کرتا ہے،تو  پیشاب میں سبقت لے جانے والے عضو   کے مطابق حکم لگایا جائے گا(یعنی یہ دیکھا جائے گا کہ پہلے کس عضو  سے  پیشاب  کرتا ہے)،کیونکہ دونوں اعضاء میں سے ایک   عضو سے پیشاب کا پہلے نکلنا   (اس   بات کی )  دلیل ہے کہ     پیشاب نکلنے کا عضو اصلی یہی ہے  اور دوسرے عضو سے   نکلنا پہلے عضو سے انحراف کے طریق پر ہے  اور دونوں اعضاء میں کوئی عضو(  پیشاب  کے اعتبار سے ) دوسرے پر سابق نہ ہو  ،تو   امام اعظم رضی اللہ عنہ نے     اس پہ توقف کیا  اور فرمایا  کہ یہ خنثٰی   مشکل  ہے  اور یہ امام اعظم رضی اللہ عنہ    کی کمال فقاہت  کی دلیل ہے ۔(بدائع الصنائع ،جلد 6 ،کتاب الخنثٰی ،صفحہ 418 ،مطبوعہ پشاور(

   شیخ الاسلام برہان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر فرغانی مرغینانی حنفی رحمہ اللہ ( المتوفٰی 593 ھ) فرماتے ہیں:”وإذا بلغ الخنثى وخرجت له اللحية أو وصل إلى النساء فهو رجل وكذا إذا احتلم كما يحتلم الرجل أو كان له ثدی مستو، لأن هذه من علامات الذكران ولو ظهر له ثدی كثدی المرأة أو نزل له لبن فی ثديه أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من الفرج فهو امرأة  لأن هذه من علامات النساء وإن لم يظهر إحدى هذه العلامات فهو خنثى مشكل وکذا اذا تعارضت ھذہ المعالم“ ترجمہ :اور جب خنثٰی  بالغ ہو جائے  اور اس کی  داڑھی نکل آئی یا  عورتوں  سے جماع کے  قابل ہو جائے،   تو وہ مرد کے حکم میں ہے  اور یونہی احتلام ہو ،جیسے مرد کو ہوتا ہے  یا اس کے پستان سینے کے برابر ہوں (یعنی ابھار نہ  ہو)  کیونکہ یہ  سب مردانگی کی علامات ہیں اور اگر اس کے پستان ایسے ظاہر ہوں جیسے عورت کےہوتے ہیں یا اس کے پستانوں میں دودھ اتر  آئے  یا ماہواری آئے یا حاملہ ہو  جائے  یا اس کے زنانہ  عضوِ خاص میں جماع ممکن ہو،  تو  یہ  عورت کے حکم میں ہے  ،کیونکہ یہ  سب  زنانہ علامات ہیں  اور اگر ان علامات میں سے کوئی ایک بھی علامت  ظاہر نہ  ہو، تو  وہ خنثٰی مشکل ہے اور یونہی  جس میں یہ علامات باہم  متعارض ہوں (یعنی مرد انہ  علامت بھی پائی جائے اور زنانہ بھی) ۔(الھدایۃ ،جلد 4 ،کتاب الخنثٰی  ،صفحہ 568 ،مطبوعہ مکتبہ امام احمد رضا ،راولپنڈی(

   صاحب در مختار علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”وله فی الميراث أقل النصيبين يعنی أسوأ الحالين به يفتى“ترجمہ :اور خنثٰی  مشکل کو وراثت میں  دو حصوں میں سے  کم  حصہ  یعنی دو حالتوں میں سے نچلی حالت  والا حصہ ملے   گا  ۔یہی مفتٰی بہ قول ہے  ۔)الدر المختار مع ردالمحتار ،جلد 10 ،کتاب الخنثٰی ،صفحہ 482 ،مطبوعہ  کوئٹہ(

   علامہ سید محمد امین ابن عابدین  شامی حنفی  رحمہ اللہ  (المتوفٰی 1252 ھ)مذکورہ بالا عبارت کے تحت فرماتے ہیں:” فأيهما أقل يعطاه وإن كان محروما على أحد التقديرين فلا شیء له“ترجمہ : (خنثٰی  مشکل کو مذکر و مؤنث تسلیم کر کے ) دونوں حصوں میں سے جو کم حصہ ہو   ،اسے دیا جائے گا  اور  اگر  دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت   میں محروم ہو،  تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ )رد المحتار مع ردالمحتار ،جلد 10 ،کتاب الخنثٰی ،صفحہ 482 ،مطبوعہ  کوئٹہ(

   بہارِ شریعت میں ہے:”خنثیٰ مشکل کا حکم یہ ہے کہ اس کو مذکر و مؤنث مان کر جس صورت میں کم ملتا ہے، وہ دیا جائے گا اور اگر ایک صورت میں اسے حصہ ملتا ہے اور ایک صورت میں نہیں ملتا، تو نہ ملنے والی صورت اختیار کی جائے گی ۔ “)بھار شریعت ،جلد 3 ،حصہ بستم ،صفحہ 1174 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی(

   نیز بہار شریعت میں ہے :”اگر خنثیٰ کو لڑکا مانتے ہیں، تو اسے ۵ حصوں میں سے دو حصے ملتے ہیں اور اگر اسے لڑکی مانتے ہیں، توچار حصوں میں سے ایک حصہ ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ 5/2    ،4/1  سے زیادہ ہے، لہٰذا اس کو مؤنث والا حصہ یعنی 4/1 دیا جائے گا۔۔۔۔اگر خنثیٰ کو باپ کی طرف سے بھائی قرار دیا جائے ،تو وہ عصبہ بنے گا اور اس کے لئے کچھ نہ بچے گا، اس لئے کہ نصف شوہر کا اور نصف حقیقی بہن کا فرض حصہ ہے اور عصبہ کو اس وقت ملتا ہے جب ذوی الفروض سے کچھ بچے، اور جب خنثیٰ کو باپ کی طرف سے بہن فرض کیا گیا،تو وہ ذوی الفروض میں سے ہے اور ۶ سے مسئلہ بنانے کے بعد نصف یعنی ۳ شوہر کو ملے اور نصف حقیقی بہن کو اور خنثیٰ کوچھٹا حصہ یعنی ایک ، بہنوں کا دو تہائی حصہ پوراکرنے کے لئے اور مسئلہ عول ہو کر ۷ سے ہو گیا لہٰذا خنثیٰ کومذکر مان کر محروم رکھا جائے گا۔‘‘(بھار شریعت  التقاطاً ،جلد 3 ،حصہ بستم ،صفحہ 1175 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم