Virasat Mein Choray hue Karobar Mein Wursa Ki Ijazat Ke Bagair Nafa Kamana Kaisa Aur Is Par Hak Kis Ka Hai ?

وراثت میں چھوڑے ہوئے کاروبار میں ورثاء کی اجازت کے بغیر نفع کمانا کیسا اور اس پر حق کس کا ہے ؟

مجیب:مولانا عرفان احمد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6880

تاریخ اجراء:26ربیع الثانی1441ھ/24دسمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والدصاحب کاانتقال ہوا ، توانہوں نے اپنے ورثاء میں پانچ  بیٹےاورایک بیٹی کوچھوڑا۔اب جبکہ شریعت کے مطابق ان کے ترکے کوتقسیم کرنے لگے ہیں تویہ مسئلہ درپیش ہے کہ والدصاحب اپنی زندگی میں ایک کاروبارچلارہے تھے ، جسے والدصاحب کے ساتھ مل کردوبیٹے بھی چلارہے تھےاس کاروبارمیں ان کی  کوئی شراکت نہ تھی ، بس والدصاحب کے کاروبارچلانے میں مددگارتھے ،والدصاحب نے وفات پائی تووہی دونوں بیٹے اس کاروبارکوچلاتے رہے حالانکہ بقیہ ورثاء کی طرف سے اجازت نہ تھی اوراب تقسیم میں ان دونوں کاکہناہے کہ یہ کاروباران ہی کودے دیاجائے اوربقیہ ترکے کوشریعت کے مطابق سب میں تقسیم کردیاجائے ، جبکہ بقیہ ورثاءاب بھی اس بات پرراضی نہیں ہیں ، بلکہ کاروبارمیں بھی جوان کاحصہ بنتاہے ا س کاتقاضاکرتے ہیں ، لہٰذابتائیے کہ کیابقیہ تقسیم میں اس کاروبارکوبھی تقسیم کرناپڑے گایانہیں؟اوراگرکاروباربھی تقسیم کرناہوگاتوجوآج تک اس کاروبارسے کمایاگیاہے، کیابقیہ ورثاء کااس میں بھی حصہ بنے گایانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورتِ مسئولہ میں سائل کے سچاہونے کی صورت میں دیگرچیزوں میں جس طرح شرعی تقسیم ہوگی اسی طرح کاروبار کے مال  میں بھی تقسیم  کی جائے گی اوردونوں بھائیوں کادیگرورثاء کے مانگنے کے باوجودان کاحصہ نہ دیناناجائزوحرام اورجہنم میں لے جانے والاکام ہے۔ کسی کاحق کھانے والوں کے بارے میں قرآن و احادیث میں بہت سی وعیدیں آئیں ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجیدمیں ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿ولا تاکلوااموالکم بینکم بالباطل﴾ترجمہ کنزالایمان:”اورآپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ۔ “

(سورة بقرہ،آیت 188)

    کسی وارث کی میراث نہ دینے سے متعلق حدیث پاک میں ہے:”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،ص194،مطبوعہ کراچی)

    اورمیراث کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین﴾ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں حکم دیتاہے تمہاری اولادکے بارے میں،بیٹے کاحصہ دوبیٹیوں کے برابرہے۔

(پارہ4،سورۃالنساء،آیت11)

    اورجہاں تک بغیرورثاء کی اجازت کے اس کاروبارکو جاری رکھ کراس سے حاصل کیے ہوئے نفع کامعاملہ ہے توجو ان دونوں بھائیوں نے اس کاروبارسے کمایا ، وہ بھی ان بھائیوں کے لیے اپنے استعمال میں لانا حرام ہے کہ اگرچہ اس کے یہ  خودمالک ہیں اوردیگرکواس کے مطالبے کاحق حاصل نہیں ، لیکن جوکمایاچونکہ مشترکہ کاروبارسے بغیران کی اجازت سے کمایا ، توان دونوں بھائیوں کے حصے کے بدلے جتنانفع آئے وہ ان کے لیے جائزہے اور دوسروں کے حصے کانفع  ان کے حق میں ملک  خبیث یعنی ناپاک و حرام ہے ،جس کاحکم یہ ہے کہ یاتویہ فقیرِ شرعی پر بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کر دیں یاپھرورثاء کودے دیں  اورورثاء کودیناافضل ہے۔

    مالِ مغصوبہ سے حاصل شدہ نفع اصل مالک کانہیں ہوتا، بلکہ غاصب کاہی ہوتاہے۔جیساکہ رد المحتار میں ہے:” أن الغلة للغاصب عندنا،لأن المنافع لاتتقوم إلابالعقدوالعاقدهوالغاصب فكان هو أولى ببدلها،ويؤمر أن يتصدق بهالاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير“ترجمہ:(غصب کی ہوئی چیز سے حاصل شدہ ) نفع ہمارے نزدیک غاصب کا ہی ہوگا،کیونکہ منافع عقدکے ساتھ ہی قائم ہوتے ہیں اورعاقدیعنی عقدکرنے والا(یہاں)وہی غاصب ہے…تواس کے بدل کازیادہ حقداربھی وہی ہوگا،(ہاں)اسے وہ نفع صدقہ کرنے کا حکم دیاجائے گا،اس لیے کہ وہ اس کوخبیث بدل کے ذریعے حاصل ہواہے اوروہ(خبیث بدل)غیرکے مال میں تصرف کرناہے۔

( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الغصب ، جلد 9 ، صفحہ 317 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن  ایک مقام پرمشترکہ مال سے اجازت کے بغیرملنے والے نفع کے بارے میں حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”جبکہ نہ ان لڑکیوں نے اپناحصہ مانگانہ لڑکوں نے دیااوربطورخوداس میں تجارت کرتے رہے تووہ چاروں لڑکیاں اصل متروکہ میں اپناحصہ طلب کرسکتی ہیں،تجارت سے جونفع ہوا ، وہ لڑکیاں اس کی مالک نہیں، ہاں ان کے حصہ پرجونفع ہوا ، لڑکوں کے لئے ملک خبیث ہے ۔ لڑکوں کوجائزنہیں کہ اسے اپنے تصرف میں لائیں، ان پرواجب ہے کہ یاتووہ نفع فقراء مسلمین پرتصدق کریں یاچاروں لڑکیوں کو دے دیں اوریہی بوجوہ افضل واولیٰ ہے اوران لڑکیوں کے لئے حلال طیب ہے کہ انہیں کی ملک کانفع ہے جبکہ لڑکوں پرشرعاً حرام ہے کہ ان لڑکیوں کے حصہ کانفع اپنے صرف میں لائیں تولڑکیوں ہی کوکیوں نہ دیں کہ ان کی دلجوئی ہو ، صلہ رحم ہو ، صاحب حق کی ملک کانفع اسی کوپہنچے ۔“

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 26 ، صفحہ 373 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم