Inteqal Kar Jane Wale Rishtedar Ka Saman Istemal Karna

 

انتقال کرجانے والے رشتہ دار کا سامان استعمال کرنا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3366

تاریخ اجراء: 09جمادی الاخریٰ 1446ھ/12دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      رشتے دار  کا انتقال ہوگیا تھا،توکیا ان کا سامان ،کپڑے اور پرفیوم وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب کوئی شخص انتقال کرتا ہے تو اس کی ملکیت کی تمام چیزیں (خواہ وہ جائیداد منقولہ ،کرنسی، سامان ، کپڑے ، برتن، پرفیوم وغیرہ   ہوں یا غیر منقولہ ،مکان ، زمین وغیرہ )سب وراثت بن جاتی ہیں،جن سے سب سے پہلے میت کے کفن ،دفن کے معاملات کرنا اورپھراس کے ذمہ قرض ہوتواس کی ادائیگی کرنااورپھراگراس نے کوئی جائزوصیت کررکھی ہوتوشرعی حدمیں رہتے ہو ئے، اس وصیت کوپوراکرناہوتاہے اوراس کے بعدجوکچھ بچے وہ ورثا میں تقسیم ہوتا ہے کہ یہ اب ان کی ہی ملکیت ہے ،لہذا  سوال میں ذکر کی گئی چیزوں کو کوئی غیروارث،ورثاء کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا،اسی طرح ایک وارث ،دوسرے ورثاکی اجازت کے بغیراستعمال نہیں کرسکتا۔اوراس کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ اجازت دینے والاوارث اجازت دینے کااہل بھی ہویعنی عاقل ،بالغ ہوکہ غیرعاقل یانابالغ کی اجازت کفایت نہیں کرتی،لہذاایسی صورت میں شرعی طریقہ کارکے مطابق اولاترکہ تقسیم کرلیاجائے پھرجس کے حصے میں جوآئے، وہ اسے استعمال کرے اوراگروہ عاقل بالغ ہوتوکوئی  دوسرابھی اس کی اجازت سے استعمال کرسکتا ہے۔

   سنن الدارقطنی میں ہے''لایحل مال امرء مسلم الاعن طیب نفس''ترجمہ:کسی مسلمان کامال بغیراس کی رضاکے لیناحلال نہیں ہے ۔       (سنن الدارقطنی،ج3،ص424،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

   مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں  ہے"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه"ترجمہ:کسی ایک کے لئے غیر کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز نہیں ۔(مجلۃ الاحکام العدلیۃ،جلد01،صفحہ27، الناشر: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

   در مختار و تنویر الابصار میں ہے "(يبدأ من تركة الميت)۔۔۔۔۔۔(بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير ) ۔ ۔ ۔ ۔ ( ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)۔۔۔ثم) تقدم (وصيته)۔۔ (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه و ديونه ۔ ۔ ۔ ۔ ( ثم ) ۔ ۔۔(يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثہ"ترجمہ:میت کے ترکہ مال میں سے  میت کی تجہیز یعنی کفن سے ابتداء کی جائے گی بغیر کمی وزیادتی کے۔۔پھر میت کے وہ دیون جن کا مطالبہ بندوں کی طرف سے اس سے ابتداء کی جائے گی ۔۔پھر تجہیز وتکفین کے بعد میت کے بقیہ مال کے ثلث میں سے  میت کی وصیت کو مقدم کیا جائے گا۔۔۔پھر  اس کے بعد بقیہ مال کو میت کے ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ (رد المحتار على الدر المختار،جلد06،صفحہ759 تا761،الناشر: دار الفكر-بيروت،ملتقطا)

   فتاوی رضویہ میں ہے :" غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یااور بچہ نابالغ ہوتا ہے۔ یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے، نہ ان سے اس کا اذن لیاجاتا ہے، جب تو یہ امر سخت حرام شدید پر متضمن ہوتا ہے۔ ۔۔خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے نہ اس کے باپ نہ اسے کے وصی کو ۔۔۔۔ اور اگر ان میں کوئی یتیم ہوا تو آفت سخت تر ہے ، والعیاذ باللہ رب العالمین ۔ ہاں اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں توحرج نہیں بلکہ خوب ہے۔ بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مال خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں، تو سب وارث موجود و بالغ وراضی ہوں۔"(فتاوی رضویہ،ج9، ص664 ،665،رضا فآنڈیشن لاہور)

   فتاوی خلیلیہ میں ہے”آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال کا مالک ہوتا ہے ، اور آنکھ بند ہوئی تو اس کے تمام مالِ متروکہ (جائیدادِ منقولہ و غیر منقولہ ، اسبابِ خانہ داری ہو یا مالِ تجارت)سے اس کے وارثوں کا حق متعلق ہوجاتا ہے، ورثہ خواہ بالغ ہوں یا نابالغ ، شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ،  لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ “(فتاوی خلیلیہ ، جلد 3 ، صفحہ 432 ،ضیاء القرآن  پبلی کیشنز، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم