Insurance Ki Raqam Ki Warasat Ka Hukum

 

انشورنس کی رقم کی وراثت کا حکم

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میرے والد صاحب نے لائف انشورنس کروائی ہوئی تھی اور اسے میرے نام کلیم کروایا تھا۔تقریباً ڈیرھ ماہ قبل والد صاحب کا قضائے الٰہی سے انتقال ہوچکا ہے۔معلوم یہ کرنا ہے کہ ان کی انشورنس کی رقم کی حقدار صرف میں ہوں یا تمام ورثاء حقدار ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً یہ یاد رکھئے کہ لائف انشورنس کروانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے کیونکہ اس میں پالیسی ہولڈر کی طرف سے جمع کروائی گئی رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہے جس پر اسے نفع ملنا مشروط ہوتا ہے حالانکہ قرض پر مشروط نفع سود ہے اور سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔قرآن و حدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔

   اگر کوئی انشورنس کروالے تو اس پر لازم ہے کہ اس معاملے کو فوراً ختم کرے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے۔ نیز لائف انشورنس کی مد میں جتنی رقم جمع کروائی ہو صرف اتنی رقم واپس لی جا سکتی ہے جبکہ اضافے والی سودی رقم لینا حلال نہیں۔

   اور اگر پالیسی ہولڈر کا انتقال ہوجائے تو نامزد کردہ فرد کمپنی میں کلیم کرکے پالیسی ہولڈر کی جمع کروائی ہوئی اصل رقم لے لے اور سود والی رقم چھوڑ دے۔پھر اصل رقم مرحوم کے تمام ورثاء کے درمیان شرعی طریقہ کار کے مطابق تقسیم ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ وہ رقم صرف نامزد کردہ فرد کو ملے کیونکہ کمپنی میں کسی کو نامزد کروانے کا مقصد اسے مالک بنانا نہیں ہوتا بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ پالیسی ہولڈر کے انتقال کی صورت میں وہ فرد کمپنی سے رقم وصول کرکے مرحوم کے ورثاء کو پہنچا دے، تو چونکہ اسے مالک بنانا مقصود نہیں ہوتا اس لئے وہ اس رقم کا مالک بھی نہیں بنتا، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں صرف آپ والد صاحب کی لائف انشورنس کی اصل رقم کی حقدار نہیں ہیں بلکہ مرحوم کے تمام ورثاء اس کے حقدار ہیں۔

   خیال رہے کہ اگر کسی نے سودی رقم لے لی ہو تو اس پر واجب ہے کہ توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اتنی رقم صدقے کے ثواب کی نیت کئےبغیر زکوٰۃ کے حقدار کسی شرعی فقیر کو دے دے۔

   تنبیہ:انشورنس کی ایک اور صورت جنرل انشورنس ہے جو غیر جاندار چیزوں کی ہوتی ہے اور جنرل انشورنس بھی حرام و گناہ ہے کیونکہ وہ جوئے اور ظلم پر مشتمل ہوتی ہے،اس طرح کہ اگر مقررہ مدت کے دوران پالیسی ہولڈر کی خریدی ہوئی چیز کو کوئی نقصان پہنچا تو کمپنی کو اس کی تلافی کرنی ہوتی ہے اور یوں پالیسی ہولڈر کا فائدہ ہو جاتا ہے کہ اس صورت میں نقصان زیادہ ہونے کی صورت میں کم رقم دے کر زیادہ رقم مل جاتی ہے اور اگر پالیسی ہولڈر کی چیز مقررہ مدت تک کمپنی کے بیان کردہ نقصانات سے محفوظ رہی تو اس کی جمع کردہ ساری رقم اسے واپس نہیں ملتی اورکمپنی کا فائدہ ہو جاتا ہے، اسی کو جُوا کہتے ہیں نیز جو نقصان کمپنی نے نہیں کیا اس کی تلافی کا ذمہ دار کمپنی کو ٹھہرانا ظلم ہے اور جُوا اور ظلم دونوں ہی حرام ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم