Gumshuda Shakhs Ki Wirasat Ka Hukum

گمشدہ شخص کی وراثت کا حکم

مجیب: محمد طارق رضا عطاری  مدنی

مصدق: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:  Faj-7046

تاریخ اجراء: 05رمضان المبارک1443 ھ/07اپریل2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میر ا نام ۔۔  ۔۔۔۔۔ہے ،میرے شوہر کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔میرے شوہر چرس وغیرہ کا نشہ کرتے تھے۔گھر سے چلے جاتے ،پھر واپس آجاتے ،اب 2009ء سے گئے ہیں اور واپس نہیں آئے ،ان کی زندگی یا موت کی کوئی خبر نہیں،میرے شوہر کی تاریخِ پیدائش 01-01-1958ہے ۔اوراسلامی تاریخ 10جمادی الاُخری 1377ھ ہے ،اور اسلامی تاریخ کے حساب سے ان کی عمر 66سال ہے ۔ ان کے والدین ان کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے،ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے ،ورثاء میں ،بیوی تین بیٹیاں،دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ،میرے شوہر  کے ترکےمیں ایک گھر ہے ،اس گھر  کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو شخص گم ہوجائے اور اس کے زندہ ہونے یا انتقال کرجانے کا علم نہ ہو، تو وہ شخص اپنے مال کے اعتبار سے زندہ سمجھا جائے گااور اس کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوگی ،اس کے مال کو محفوظ رکھا جائے گا ۔ 70سال کی عمر ہونے تک اگر یہ واپس آجاتا ہے ،تو اس کا مال اس کے حوالے کردیا جائے گا،اور اس کی عمر 70سال ہونے پر اس کے زندہ ہونے یا انتقال کرنے کا پتہ نہیں چلتا ،تو قاضی شہر کے پاس مسئلہ پیش ہو اور وہ  اس کی موت کا حکم دے دے اور قاضی نہ ہونے کی صورت میں مفتیِ  شہر اس کی موت کا حکم دے دے،تو اُس وقت اس کی ملکیت میں جوکچھ ہے، وہ ان لوگوں میں تقسیم کردیا جائے گا ،جو اس کی موت کے وقت زندہ ہوں اور جو اس کی موت کے وقت سےپہلے ہی انتقال کرگئے ،وہ اس کے مال میں  وارث نہیں ہوں گے،لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ  کے شوہر کے مال میں فی الحال وراثت جاری نہیں ہوگی ،ان کی عمر ستر سال ہونےکے بعد، ان کے زندہ ہونے یا انتقال کرجانے کا علم نہ ہونے پر جب مسئلہ مفتیِ شہرکے پاس پیش ہو اور وہ ان کی موت کا حکم کردیں، تو اس وقت ان کے جو وارث زندہ ہوں گے ، ان میں ان کے حصوں کے مطابق  مال تقسیم کردیا جائے گا۔

   درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:’’(غائب لم يدر أثره) أي في أي موضع هو (ولم يسمع خبره) أحي هو أم ميت (حي في حق نفسه) بالاستصحاب (ولا يقسم ماله قبل أن يعرف حاله) لأن ظاهر حاله الحياة والقسمة بعد الممات ۔۔۔ (وبعده) أي بعد موت أقرانه (يحكم بموته في) حق (ماله يوم تمت المدة۔۔۔ ويقسم ماله بين من يرثه الآن) ولا يرثه وارث مات قبل المدة‘‘ ترجمہ:ایسا غائب شخص جس کا کوئی علم نہ ہو کہ وہ کس جگہ ہے ، اوراس کی کوئی خبر بھی نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، تو وہ شخص استصحاب کی وجہ سے اپنے حق میں زندہ ہے اور اس کا مال اس کی حالت جاننے سے پہلے تقسیم نہیں کیا جائے گا ،کیونکہ اس کی ظاہری حالت حیات شمار ہو گی اور تقسیم ترکہ مرنے کے بعد ہوتا ہے ۔۔۔ اس کے ہم زمانہ لوگوں کی موت کے بعد غائب شخص کے مال کے اعتبار سے اس کی موت کا حکم دیا جائے گا، جس دن وہ مدت پوری ہو ۔ اور اب اس کے ورثا میں مال تقسیم کر دیا جائے گا ۔ جو اس مدت گزرنے سے پہلے فوت ہو گئے ،وہ غائب شخص کے وارث نہیں بنیں گے۔ (دررالحکام شرح غرر الاحکام ،جلد2،صفحہ 127،128،مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے :’’ اگر کوئی شخص گم ہو جائے اور اس کی زندگی یاموت کا کچھ علم نہ ہو، تو وہ شخص اپنے مال کے اعتبار سے زندہ متصور ہوگایعنی اس کے مال میں وراثت جاری نہ ہو گی، مگر دوسرے کے مال کے اعتبار سے مردہ شمار ہو گا یعنی کسی سے اس کووراثت نہ ملے گی۔ گمشدہ شخص کے مال کو محفوظ رکھا جائے گا، یہاں تک کہ اس کی موت کا حکم دے دیا جائے اور اس کی مقدار صاحب فتح القدیر کی رائے میں یہ ہے کہ مفقود کی عمر کے ستر برس گزر جائیں، تو قاضی اس کی موت کا حکم دے گا اور اس کی جو اَملاک ہیں ،وہ ان لوگوں پر تقسیم ہوں گی، جو اس  موت کے حکم کے وقت موجود ہیں ۔مفقود کا اپنا مال تو پورا محفوظ رکھا جائے گا تاوقتیکہ اس کی موت کا حکم دیا جائے ،اگر اس حکم سے پہلے وہ واپس آگیا، تو اپنے مال پر قبضہ کرلے گا اور اگر واپس نہ آیا، توجس وقت موت کا حکم کیا جائے گا، اس وقت جو وارث موجود ہوں گے ،ان پر تقسیم کر دیا جائے گا ۔“(بھارِ شریعت،جلد3(ب)،حصہ20،صفحہ1181،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :’’جو شخص ایسا غائب ہو کہ اس کا پتہ نہ چلے اسے مفقود کہتے ہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا مال اس وقت تک محفوظ رکھا جائے جب تک اس کی موت معلوم نہ ہو،یا یہ کہ قاضی اس کی موت کا حکم دیدے اور قاضی کب موت کا حکم دےگا؟ اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ مگر امام ابن ہمام نے جس قول کو اختیار فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی عمر ستر سال کی ہوجائے۔  ردالمحتار میں فتح القدیر سے ہے :’’واختار ابن ھمام سبعین لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اعمار امتی مابین الستین الی السبعین فکانت المنتھی غالبا‘‘اور چونکہ مسماۃ مذکورہ کی عمر تقریباستر سال کی ہے ۔لہٰذا اگر ثابت ہو کہ ستر سال کی عمر ہوچکی ہے، تو حکم موت دیا جاسکتا ہے، مگر یہ کام قاضی کا ہے اور یہاں ہندوستان میں قاضی نہیں ،یہ کام شہر کا سب میں بڑا عالم کرسکتا ہے کہ وہ ایسی صورت میں قاضی کے قائم مقام ہوسکتا ہے ،اس کے پاس معاملہ کو پیش کیا جائے، اگر وہ موت کا حکم دیدے ،تو جو کچھ مسماۃ کا مال ہے ،وہ صورت مسئولہ میں دونوں وارثوں میں حسب شرائط فرائض برابر برابر تقسیم کردیا جائے۔“(فتاوی امجدیہ، جلد3،صفحہ381،382 ، دارالعلوم امجدیہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم