مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-2661
تاریخ اجراء: 16صفر المظفر1446 ھ/22اگست 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مرحوم کی بیوہ اگرچہ آگے شادی کر لے ، مرحوم شوہر کی وراثت سے پھر بھی اس کو حصہ ملے گا ، آگے شادی کرنے کی وجہ سے اس کو ملنے والا حصہ ختم نہیں ہوگا ۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ کسی وارث کو وراثت نہ دینے کے چار اَسباب ہیں ، ان میں سے کوئی ایک سبب پایا جائے تو وراثت سے حصہ نہیں ملتا اور بیوہ کا آگے شادی کر لینا ان اَسباب میں سے نہیں ہے ، یہاں تک کہ بیوہ یا کسی بھی شخص کا اگر ایک دفعہ وراثت میں حصہ ثابت ہوجائے ، تو پھر اگرچہ وہ شخص فوت بھی ہوجائے ، اس کا جو حصہ ثابت ہوا تھا ، وہ ختم نہیں ہوتا ، بلکہ وراثت کے اصولوں کے مطابق اس کے ورثاء میں ہی تقسیم ہوتا ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مرحوم کی بیوہ اگرچہ آگے شادی کر لے ، پہلے والے مرحوم شوہر کی وراثت سے اس کا حصہ ختم نہیں ہوگا ؛ مرحوم شوہر کی اولاد نہ ہو تو بیوہ کو کل مال کا چوتھا (4/1)حصہ اور مرحوم شوہر کی اولاد ہو تو بیوہ کو آٹھواں(8/1) حصہ ملے گا ۔
بیوہ کے حصہ کے بارے میں قرآنِ پاک میں ہے: ﴿ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّکُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمۡ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان: ”اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے ۔“(پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 12)
وراثت کی شرائط کے متعلق رد المحتار میں ہے : ”و شروطہ ثلاثۃ ۔۔۔ و وجود وارثہ عند موتہ حیاالخ “ترجمہ : وراثت کی تین شرائط ہیں : ( دوسری شرط یہ ہے کہ جس شخص کی وراثت تقسیم ہورہی ہے ، ) اُس کی موت کے وقت وارث بننے والا شخص زندہ ہو ۔( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الفرائض ، جلد 10 ، صفحہ 525 ، مطبوعہ کوئٹہ )
وارث کو وراثت سے محروم کرنے کے اسباب کے متعلق شیخ الاسلام و المسلمین سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”وراثت سے محرومی کے صرف چار سبب ہیں کہ وارث غلام ہو ، یا مورِث کا قاتل ، یا کافر ہو ، یا دار الحرب میں رہتا ہو ، باقی کوئی ناقابلیت اسے اس کے حقِ شرعی سے محروم نہ کرے گی۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 26 ، صفحہ 291، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
بیوہ کے آگے شادی کرلینے سے وراثت میں بننے والے حصے سے متعلق امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:”( شوہر کے انتقال کے بعد عورت کا ) نکاح ثانی کرلینا ، عورت کے مہر یامیراث کوساقط نہیں کرتا۔“ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 25 ، صفحہ 374 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:”دوسری شادی کرنے کے بعد بھی عورت اپنے متوفیٰ شوہر کی جائیدادمیں حصہ پانے کی مستحق ہے ۔ اگر اس کے خاوند نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی ، تو اس صورت میں اس کی کل جائداد میں سے 4/1حصہ بیوی کا ہے اور اگر لڑکی یا لڑکا کوئی اولاد چھوڑ کر مرا ہے ، تو 8/1حصہ ہے ۔ اگر خاوند کے ورثہ اس کا پورا حصہ نہیں دیں گے، تو سخت گنہگار ، حق العبد میں گرفتار اور مستحقِ عذابِ نار ہوں گے۔“(فتاوی فیض الرسول ، جلد 2 ، صفحہ 728 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور)
ایک مرتبہ کسی کا حق ثابت ہوجائے ، تو لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ساقط نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’ ہیچ حق ثابت نامقید بوقتے خاص ارث باشد خواہ غیر اومطلقاً اجماعاً بتقادم زمان زنہار ساقط نشود ( ترجمہ : ) جب کوئی حق ثابت ہوجائے اور وہ کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہ ہوچاہے میراث ہو یاکوئی اور مطلقاً بالاتفاق زیادہ عرصہ کے گزرنے سے ہرگز ساقط نہیں ہوتا ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 26 ، صفحہ 261 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وراثت تقسیم ہونے سے پہلے وارث کا انتقال ہوجائے ، تو اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:” (مناسخہ)یہ لفظ نسخ سے نکلا ہے جس کے معنیٰ بدلنے کے ہیں اور فرائض کی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ میت کے ترکہ کی تقسیم سے قبل ہی اگر کسی وارث کا انتقال ہو جائے تو اس کا حصہ اس کے وارثوں کی طرف منتقل کر دیا جائے۔“(بھارِ شریعت ، حصہ 20 ، جلد 3، صفحہ 1157 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
تنبیہ!ہمارے معاشرے میں چند برائیاں ایسی راسخ ہوگئی ہیں کہ لوگوں کی ان کی طرف توجہ ہی نہیں ہے کہ یہ بھی برائی اور گناہ ہے ، ان میں سے ہی ایک بہت بڑی خرابی مالِ وراثت میں شرعی طور پر وارث بننے والے اَفراد کو حصہ نہ دینا ہے ۔ کبھی بیٹیوں کو یہ کہہ کر حصہ نہیں دیا جاتا ، کہ ان کی شادی اچھے طریقے سے کر دی ہے ، شادی پر بہت خرچہ کر دیا ہے ، اس لیے وراثت سے حصہ نہیں ملے گا ۔ کبھی بہنوں کو طعن و تشنیع اور ٹارچر کر کے ان سے حصہ معاف کروا لیا جاتا ہے ، یا بہنوں کو حصہ دینے کا رواج ہی نہیں ہوتا ، تو یوں ان کو حصہ نہیں دیا جاتا ؛اگر بیوہ کے سسرال والے اثر و رسوخ رکھتے ہوں ،تو بیوہ کا حصہ یہ کہہ کر کھا جاتے ہیں کہ بیوہ آگے شادی کر لے تو اس کا حصہ نہیں بنتا ۔ اسی طرح یتیم بچوں کا حصہ مختلف حیلے بہانوں سے کھا لیا جاتا ہے ، الغرض ہمارے معاشرے میں یہ ایک ایسی خرابی پائی جاتی ہے کہ جس میں دانستہ اور نادانستہ طور پر لوگ ملوث ہوجاتے ہیں، حالانکہ قرآن و حدیث میں وراثت کو صحیح طریقے سے تقسیم کرنے کا سختی کے ساتھ حکم ہوا ہے ، اسی طرح نہ دینے والوں کے بارے میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ۔
چنانچہ اللہ عز و جل وراثت تقسیم کرنے کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :﴿ یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوْلَادِکُمْ ٭لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۔۔۔ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ ؕاِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴾ ترجمۂ کنز العرفان : ’’ اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے ۔۔۔یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے۔‘‘(پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 11)
اس آیتِ کریمہ میں فَرِیۡضَۃً کے تحت تفسیر روح البیان میں ہے : ’’ ای فَرَضَ اللہُ ذلك الميراثَ فَرْضاً ‘‘ ترجمہ : یعنی اس ( تقسیمِ ) میراث کو اللہ عز و جل نے تمہارے لیے فرض قرار دیا ہے ۔( تفسیر روح البیان ، ج 2 ، ص 138 ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت )
صحیح طور پر وراثت تقسیم کرنے کی فضیلت کے بارے میں قرآنِ پاک میں ہے:﴿ تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان:”یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ “(پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 13)
اور جو وراثت کے معاملہ میں نافرمانی کرے ، اس کے متعلق قرآنِ پاک میں ہے:﴿وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خٰلِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان:”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کُن عذاب ہے۔“(پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 14)
وراثت سے دوسرے کا حصہ کھانا ، یہ تو کفار کا طریقہ ہے ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں کفار کی اس برائی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :﴿ وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا ﴾ ترجمۂ کنز العرفان:” اور میراث کاسارا مال جمع کر کے کھا جاتے ہو ۔ “ (پارہ 30 ، سورۃ الفجر ، آیت 19)
اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:”یہاں کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھاجاتے ہو اور حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے اور عورتوں اور بچوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے ، بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو ؛ جاہلیت میں یہی دستور تھا ۔ اس بیان کردہ ظلم میں بہت سی صورتیں داخل ہیں اور فی زمانہ جو چچا تایا قسم کےلوگ یتیم بھتیجوں کے مال پر قبضہ کر لیتے ہیں یا روٹین میں جو بہنوں ، بیٹیوں یا پوتیوں کو راثت نہیں دی جاتی ، وہ بھی اسی میں داخل ہے کہ شدید حرام ہے ۔“(صراط الجنان ، جلد 10 ، صفحہ 668 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
یتیم بچوں کا مال کھانے والوں کے متعلق قرآنِ پاک میں ہے:﴿ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیۡرًا﴾ ترجمۂ کنز العرفان :” بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ “(پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 10)
اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:”اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ’’ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے ، کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔۔۔ یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلَوَّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔“(صراط الجنان ، جلد 2 ، صفحہ 171 ، 172 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
اگر کسی طرح بھی ورثاء کو ان کا حصہ نہیں دیں گے ، تو یہ ناحق مال کھانا ہوگا ، جبکہ اللہ عز و جل کا فرمانِ عبرت نشان ہے : ﴿ وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ﴾ترجمۂ کنز الایمان : ’’ اور آپس میں ایک دوسرے کا مالِ نا حق نہ کھاؤ ۔ ‘‘ (پارہ 2 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 188)
اس آیت کے تحت تفسیر نعیمی میں ہے : ’’ رشوت ، غصب ، لوٹ ، چوری ، جھوٹی قسمیں ، جوا ، کہانت ، خیانت وغیرہ ناجائز پیشے ، یہ سب باطل آمدنیاں ہیں : یعنی نہ تو تم اپنے مال غلط طرح خرچ کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کر کے استعمال کرو ۔ ‘‘(تفسیر نعیمی ،ج 2 ، ص 232 ، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ، لاھور )
کسی وارث کی میراث نہ دینے والے کے متعلق حدیث پاک میں ہے : ”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،صفحہ 194،مطبوعہ کراچی)
وراثت تقسیم نہ کرنے سے دوسرے کی زمین غصب کرنا لازم آئے گا ، جس کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے : ’’من اخذ شبرا من الارض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین ‘‘ ترجمہ : جو ایک بالشت زمین غصب کرے گا ، قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصہ اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا ۔( صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب ما جاء فی سبع ارضین ، ج1 ، ص 454 ، مطبوعہ کراچی )
اس حدیث پاک کے تحت مرأۃ المناجیح میں ہے : ” پہلے تو اس غاصب کو زمین کے سات طبق کا طوق پہنایا جائے گا ، پھر اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔۔۔ معلوم ہوا کہ زمین کا غصب دوسرے غصب سے سخت تر ہے ۔ ‘‘( مرأۃ المناجیح ، ج 4 ، ص 361 ، مکتبہ اسلامیہ ، لاھور )
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں وراثت تقسیم نہ کرنے کے عمل سے متعلق فرماتے ہیں : ’’ مذکورہ عمل یقیناً غصب اور حرام ہے ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 19 ، صفحہ 675 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
ایک اور مقام پر ناحق زمین ہتھیانے والے کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ اللہ قہار و جبار کے غصب سے ڈرے ، ذرا مَن دو مَن نہیں ، بیس پچیس ہی سیر مٹی کے ڈھیلے گلے میں باندھ کر گھڑی دو گھڑی لئے پھرے ، اُس وقت قیاس کرے کہ اس ظلمِ شدید سے باز آنا آسان ہے یا زمین کے ساتوں طبقوں تک کھود کر قیامت کے دن تمام جہان کا حساب پورا ہونے تک گلے میں ، معاذ اللہ ! یہ کروڑوں مَن کا طوق پڑنا اور ساتویں زمین تک دھنسا دیا جانا ۔ وَ الْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالیٰ ! ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 19 ، صفحہ 665 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟