بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟ |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:sar:6311 |
تاریخ اجراء:07محرم الحرام1440ھ/18ستمبر2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1)ہمارے ہاں میراث میں بہنوں کو حصہ نہیں دیا جاتا بلکہ سارا مال بھائی ہی لے لیتے ہیں ، ایسا کرنا کیساہے؟ (2)اگر کسی کے ہاں بہنیں مطالبہ نہ کرتی ہوں اور نہ ہی بہنوں کو دینے کا رواج ہو ، تو کیا اس رسم و رواج پر عمل کیا جا سکتا ہے ؟ (3)اگر بہنیں اپنا حصہ معاف کر دیں اور بھائیوں کو کہہ دیں کہ ہم نے اپنا حصہ نہیں لینا ، تو کیا حکم ہے ؟ (4)اگر بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کرنا چاہیں ، تو کیا طریقہ کار ہے ؟ (5)اگر بہنیں بھائیوں کو ہبہ کردیں ، تو کیا اس ہبہ سے رجوع کر سکتی ہیں ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
(1)میراث میں بہنوں کو شرعی حصہ سے محروم رکھنا اور بھائیوں کا سارے مال پر قبضہ کرلینا شدید حرام اور کبیرہ گناہ ہے ۔ میراث کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین﴾ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔(پارہ4،سورۃالنساء،آیت11) کسی وارث کی میراث نہ دینے سے متعلق حدیث پاک میں ہے : ”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،ص194،مطبوعہ کراچی) میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینے کے متعلق اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :”لڑکیوں کو حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے اور قرآن مجید کی صریح مخالفت ہے ۔ قال اللہ تعالی ﴿ یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ﴾ترجمہ:فرمان باری تعالیٰ ہے:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں،بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔(فتاوی رضویہ،ج26،ص314،رضا فاؤنڈیشن،لاہور) (2)اگرچہ بہنیں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں ، تب بھی ان کا شرعی حصہ دینا ضروری ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت میں ان کا حصہ مقرر کیا ہے ، لہذا حکم ِ شریعت کے خلاف ایسے رسم و رواج پرعمل حرام ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :”اِرث (یعنی وارث ہونا)جبری (لازمی)ہے کہ موت ِمورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصہ شرعی کامالک ہوتاہے مانگے خواہ نہ مانگے، لے یانہ لے، دینے کاعرف ہویانہ ہو اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے؛ کتنے ہی اشتراک دراشتراک کی نوبت آئے ؛ اصلاکوئی بات میراث ِثابت کوساقط نہ کرے گی؛ نہ کوئی عرف فرائض اﷲ کوتغیرکرسکتاہے، یہاں تک کہ نہ مانگنا درکنار اگر وارث صراحۃکہہ دے کہ میں نے اپناحصہ چھوڑ دیا ، جب بھی اس کی ملک زائل نہ ہوگی۔“(فتاوی رضویہ،جلد26، صفحہ113،رضافاؤنڈیشن،لاہور) (3)میراث اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حق ہے ، لہذا اگر کوئی بہن یہ کہہ دے کہ میں نے اپنا حصہ نہیں لینا ، تو بھی اس کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔علامہ ابن نجیم مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں :” لو قال الوارث تركت حقی لم يبطل حقه اذ الملك لا يبطل بالترك “ترجمہ :اگروارث نے کہا کہ میں نے اپناحق چھوڑدیاہے ، تو اس کاحق باطل نہیں ہوگا ، کیونکہ ملک چھوڑدینے سے باطل نہیں ہوتی۔(الاشباہ والنظائر ، الفن الثالث ، ج1 ، ص 272 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ) اس کے تحت غمزالعیون میں ہے : ” اعلم ان الاعراض عن الملك او حق الملك ضابطه انه ان كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال احدهما تركت نصيبی من الميراث لم يبطل لانه لازم لا يترك بالترك“ترجمہ : جان لوکہ ملکیت یا حق ِ ملکیت سے اعراض کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر ملکیت لازم ہو تو وہ اِعراض کرنے سے باطل نہیں ہو گی ۔ جیسے اگرکوئی شخص دوبیٹے چھوڑکرفوت ہوا اوران میں سے ایک نے کہا کہ میں نے میراث میں سے اپناحصہ چھوڑدیا ، تو اس کاحصہ باطل نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایسا لازم حق ہے ، جوچھوڑدینے سے ترک نہیں ہوتا ۔(غمز العیون ، ج3 ، ص 354 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت) فتاوی رضویہ میں ہے : ”میراث حقِ مقرر فرمودہ ِرب العزۃ جل وعلا ہے ، جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہوسکتا بلکہ جبرا (لازمی)دلایا جائے گا اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے مجھے اپنی وراثت منظور نہیں؛ میں حصہ کا مالک نہیں بنتا؛ میں نے اپنا حق ساقط کیا ، پھردوسرا کیونکر ساقط کرسکتا ہے؟“(فتاوی رضویہ،ج18،ص168،رضافاؤنڈیشن،لاہور) (4)اگر بغیر کسی کے مجبور کیے اپنی خوشی سے کوئی بہن ہبہ کرنا چاہے ، تو اپنے حصے میں سے جس جس کو جتنا مال ہبہ کرنا چاہے ،ان میں تقسیم کرنے کے بعد اس حصے کی تعیین کر کے مکمل قبضہ دلا دے ، تو یہ ہبہ درست ہو جائے گا کہ اپنی شے دوسرے کو تحفہ دینے کا اختیار ہونا ، تو ملکیت کی دلیل و علامت ہے ، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہمیشہ بہنیں ہی بھائیوں کو وراثت کی چیزیں ہبہ کرتی ہیں، کبھی الٹ بھی ہونا چاہیے کہ بھائی بھی اپنی وراثت کا حصہ بہنوں کو تحفہ دیدیں ۔ ہمیشہ بہنوں ہی کا بھائیوں کو تحفہ دینا اُسی رسم و رواج کی طرف اشارہ ہوتا ہے، اگرچہ بغیر مجبوری کے تحفہ دے دینا جائز ہے۔ ہبہ کی شرائط بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین محمد بن علی حصکفی( المتوفی1088ھ) فرماتے ہیں:”شرائط صحتھا فی الموھوب ان یکون مقبوضا غیر مشاع ممیزا غیر مشغول“ترجمہ : ہبہ کے صحیح ہونے کے لیے موہوب میں یہ شرط ہے کہ موہوب پر قبضہ کرلیاگیاہو، موہوب مشاع (مخلوط ملکیت)نہ ہو، ممیز وجداہو ،(موہوب لہ کے علاوہ کسی کی ملک میں)مشغول نہ ہو۔(درمختار ،کتاب الھبۃ ،ج8،ص569،مطبوعہ کوئٹہ) ہبہ کے طریقے کے متعلق اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”تمامی ہبہ کے لیے واہب کا موہوب لہ کوشے موہوب پرقبضہ کاملہ دلانا شرط ہے ۔ قبضہ کاملہ کے یہ معنی کہ وہ جائداد یا تو وقت ہبہ ہی مشاع نہ ہو (یعنی کسی اور شخص کی ملک سے مخلوط نہ ہو۔۔) اور واہب اس تمام کو موہوب لہ کے قبضہ میں دے دے یا مشاع ہو ، تو اس قابل نہ ہو کہ اسے دوسرے کی ملک سے جدا ممتاز کرلیں ، تو قابلِ انتفاع رہے ۔ جیسے ایک چھوٹی سی دکان دو شخصوں میں مشترک کہ آدھی الگ کرتے ہیں ، تو بیکار ہوئی جاتی ہے ، ایسی چیز کا بلا تقسیم قبضہ دلادینا بھی کافی وکامل سمجھا جاتاہے یا مشاع قابل تقسیم بھی ہو ، تو واہب اپنی زندگی میں جدا ومنقسم کرکے قبضہ دے دے کہ اب مشاع نہ رہی۔ یہ تینوں صورتیں قبضہ کاملہ کی ہیں۔“(فتاوی رضویہ ج 19 ، ص219 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور) (5)اگر کسی بہن نے کچھ مال اپنے سگے بھائی کوہبہ کر دیا ، تو اسے واپس نہیں لے سکتی،کیونکہ قرابت رجوع سے مانع ہے ،لیکن یہ اسی صورت میں ہے ، جب شرعی تقاضوں کے مطابق ہبہ تام ہو چکا ہو۔ ہبہ سے رجوع کرنے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”لا یرجع فی الھبۃ من المحارم بالقرابۃ کالاباء والامھات ۔۔ وکذلک الاخوۃ والاخوات“ترجمہ:(ذی رحم )محارم والی قرابت جیسے ماں باپ بھائی بہن وغیرہ میں سے کسی کو ہبہ کرنے کے بعد رجوع نہیں کیا جا سکتا۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الھبۃ،ج4،ص387،مطبوعہ کوئٹہ) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟
وراثت کی کرائے پر دی ہوئی مشترکہ دکانوں میں بہنوں کا حق؟