مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
فتوی نمبر:WAT-2768
تاریخ اجراء: 27ذیقعدۃالحرام1445
ھ/05جون2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
آج کل لوگ باپ کی پراپرٹی سے بہنوں کو حصہ نہیں
دیتے اور ساری پراپرٹی خود رکھ لیتے ہیں۔اگر کوئی شخص ایسی پراپرٹی
بیچ رہا ہو ،جس میں اس کی بہنوں کا حصہ بھی ہو،اور اس نے
اپنی بہنوں کو حصہ نہ دیا ہوتو کیا ہم ایسی پراپرٹی
خرید سکتےہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولا تو یہ
یاد رہے کہ میراث
میں بہنوں کو شرعی حصہ سے محروم رکھنا اور بھائیوں کا سارے مال
پر قبضہ کرلینا شدید حرام اور کبیرہ گناہ ہے،اس پر قرآن و حدیث میں سخت
وعیدات بیان کی گئی ہیں ۔
آپ کے سوال کا جواب
یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وراثت کے مشترکہ مکان میں سے اپنی
بہنوں کو حصہ نہ دے تویہ شخص اس مکان میں سے اپنا حصہ بیچ سکتا
ہے، لیکن اپنی بہنوں اور دیگر
ورثا کا حصہ ان کی اجازت کے بغیر نہیں بیچ سکتا ، اگر
یہ شخص پورے مکان میں سے اپنے
اور دیگر ورثاکے حصوں سمیت پورا مکان بیچے گا تو وہ اس
مکان میں سے دیگر ورثاکا حصہ
بیچنے میں فضولی کہلائے گا،اگر دیگر ورثا اپنے حصے
کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیں تو یہ خرید و
فروخت درست ہوجائے گی اور اگر وہ رجیکٹ کردیں توان کے حصے کے مطابق
ایگریمنٹ ختم ہوجائے گا۔
مشترکہ مکان میں سے اپنا غیر
معین حصہ بیچنا جائز ہے،
چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے :”لو كان المبيع دارا أو أرضا بين رجلين مشاعا غير مقسوم فباع أحدهما قبل
القسمة بيتا منها بعينه أو قطعة بعينها فالبيع لا يجوز لا في نصيبه ولا في نصيب
صاحبه بخلاف ما إذا باع جميع نصيبه من الدار والأرض فالبيع جائز‘‘ترجمہ:اگر مبیع ایسا گھر یا ایسی زمین ہو
جو دو لوگوں کے درمیان مشاع ہو ،تقسیم
شدہ نہ ہو ،پھر ان میں سے ایک نے تقسیم سے پہلے اس گھر
میں سے ایک معین حصہ
یا معین ٹکڑا بیچ دیا تو بیع جائز نہیں ہے
،نہ اس کے حصے میں اور نہ اس کے ساتھی کے حصے میں، برخلاف اس کے
کہ جب اس نے گھر یا زمین
میں سے اپنے مکمل حصے کو بیچ دیا تو بیع جائز ہے
۔ (فتاوی عالمگیری
،جلد3،صفحہ130،مطبوعہ کوئٹہ)
درر
الحکام میں ہے :” لو باع أحد
صاحبي الدار المشتركة حصته وحصة شريكه بدون إذنه لآخر فيكون البيع المذكور فضولا
في حصة الشريك (البهجة) وللشريك المذكور إن شاء فسخ البيع في حصته وإن شاء أجاز
البيع إذا وجدت شرائط الإجازة“ترجمہ:اگر
مشترکہ گھر کے مالکان میں سے ایک نے اپنا حصہ اوراپنے شریک کا
کسی اجنبی کو اس کی اجازت
کے بغیر بیچ دیا تو یہ شریک کے حصے
میں بیع فضولی ہوگی اور شریک کو اختیار ہے کہ
وہ چاہےتو اپنے حصے کی بیع
ختم کردے اور چاہے تو اسے جائز کردے جبکہ بیع کی شرائط پائی
جائیں ۔ (دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام
،جلد3،صفحہ29،مطبوعہ دار الجیل)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟