Behan Ko Wirasat Na Dena Aur Wirasat Ke Hisse Se Umrah Karna Kaisa

بہن کو وراثت نہ دینااور کیا عورت اپنےحصے سے عمرہ کر سکتی ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  Pin-6932

تاریخ اجراء: 21شعبان المعظم1443ھ25مارچ2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل سوالات کے بارے میں کہ:

   (1)ہمارے علاقے میں بھائی اپنی بہنوں کو مانگنے کے باوجود والدین کی وراثت سے حصہ نہیں دیتے،ان کا یہ فعل کیسا ہے؟

   (2)عورت کا اپنے فوت شدہ  والدین کی وراثت سے جو حصہ بنتا ہے،جیسے زمین میں،تو کیا وہ اسے بیچ کر عمرہ کر سکتی ہے؟بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نہیں کرسکتی۔برائے کرم اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)بہنیں مطالبہ کریں یا نہ کریں،بہرصورت اُنہیں والدین کی وراثت سے حصہ دینا لازم  ہے،اس کے برخلاف بھائیوں کا بہنوں کو ان کے شرعی حصہ سے محروم کردینا اور خود سارے مال پر قبضہ کر لینا،سخت ناجائز،حرام اور کبیرہ گناہ ہے،قرآن و حدیث میں اس پر سخت وعیدات بیان کی گئی ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق جو کسی وارث کو وراثت سے محروم کرے گا،قیامت کے دن اسے جنت کی میراث سے محروم کر دیا جائے گا۔جو شخص دوسرے کی ایک بالشت زمین بھی ناحق لے گا،قیامت کے دن اتنے حصے کا سات زمینوں تک طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا اور اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔

   لہذا جو افراد بہنوں کو حصہ نہیں دیتے،وہ اللہ واحد و قہار کے غضب سے ڈریں اور انہیں ان کا حصہ دیں،اگر آج نہیں دیں گے،تو کل بروزِ قیامت ضرور دینا ہو گا اور اس وقت دینا آسان نہیں۔

   شریعتِ مطہرہ نے وراثت میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر فرمایا ہے۔چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :﴿ یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوْلاَدِکُمْ ٭لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ﴾ترجمہ کنز العرفان:’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے،بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔‘‘(پارہ 4 ،سورۃ النساء،آیت11)

   میراث کے احکام کو بیان کرنے کے بعد اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿۱۳﴾وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴾ترجمہ کنزالعِرفان:’’یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے،تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،ہمیشہ ان میں رہیں گےاور یہی بڑی کامیابی ہےاور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے ،تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا،جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کُن عذاب ہے۔‘‘        (پارہ4 ،سورۃالنساء ،آیت13تا14)

   بیٹیوں یا بہنوں کو حصہ نہ دینا زمانہ جاہلیت کا دستور ہے۔چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:﴿ وَ تَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا  وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ترجمہ کنزالعرفان:اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھا جاتے ہو اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔‘‘(پارہ30 ،سورۃ الفجر،آیت19تا20)

   اس کے تحت تفسیرصراط الجنان میں ہے:’’یہاں  کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھاجاتے ہو اور حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے اور عورتوں اور بچوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے،بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو، جاہلیت میں یہی دستور تھا۔اس بیان کردہ ظلم میں بہت سی صورتیں داخل ہیں اور فی زمانہ جو چچا،تایا قِسم کے لوگ یتیم بھتیجوں کے مال پر قبضہ کرلیتے ہیں یا روٹین میں جو بہنوں، بیٹیوں یا پوتیوں کو وراثت نہیں دی جاتی،وہ بھی اسی میں داخل ہے کہ شدید حرام ہے۔‘‘(تفسیرصراط الجنان ،جلد10،صفحہ668،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   کسی وارث کو میراث نہ دینے کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من فر من ميراث وارثه، قطع اللہ ميراثه من الجنة يوم القيامة“ ترجمہ: جو وارث کو میراث دینے سے بھاگے ،اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا،صفحہ 194، مطبوعہ کراچی)

   کسی کی ناحق زمین دبا لینے کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ظلم قید شبر طوقہ من سبع ارضین‘‘ ترجمہ:جس نے ایک بالشت بھر زمین دبانے کا ظلم کیا،اسے سات زمینوں تک کا طوق ڈالا جائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب المظالم و القصاص ،باب اثم من ظلم شیٔا من الارض،جلد1، صفحہ432 ،مطبوعہ لاھور)

   مزید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا:’’من اخذ شیٔاًمن الارض بغیر حقہ،خسف بہ یوم القیٰمۃ الی سبع ارضین‘‘ ترجمہ:جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ بھی ناحق لے لیا،اسے قیامت کے دن زمین کے ساتویں طبق تک دھنسا دیا جائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب المظالم و القصاص ،باب اثم من ظلم شیٔا من الارض،جلد1، صفحہ432 ، مطبوعہ لاھور)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس طرح کی ا حادیث ذکرکرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :”حدیثیں اس باب میں متواترہیں۔۔۔اللہ قہار وجبار کے غضب سے ڈرے، ذرا من ،دو من، نہیں، بیس پچیس سیرہی مٹی کے ڈھیلے گلے میں باندھ کر گھڑی دو گھڑی لیے پھرلے،اس وقت قیاس کرے کہ اس ظلم شدید سے بازآنا آسان ہے یازمین کے ساتوں طبقوں تک کھود کر قیامت کے دن تمام جہان کا حساب پورا ہونے تک گلے میں، معاذاللہ!یہ کروڑوں من کا طوق پڑنا اور ساتویں زمین تک دھنسا دیا جانا’’والعیاذباللہ تعالی‘‘اور اللہ کی پناہ۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ665،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینے کے متعلق اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”لڑکیوں کو حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے اور قرآن مجید کی صریح مخالفت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد26،صفحہ314،مطبوعہ ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور(

    (2)عورت کو والدین کی وراثت سے جو حصہ ملتا ہے،وہ اسے بلا شبہ بیچ سکتی ہے اور اس سے عمرہ بھی کر سکتی ہے، کیونکہ مردوں کی طرح وہ بھی اپنے حصےکی مالک ہے اور انسان اپنی ملک میں جو بھی جائز تصرف کرنا چاہے،کرسکتا ہے اور خریدو فروخت اور عمرہ بھی جائز تصرف ہیں،لہذا یہ  بھی کر سکتی ہے۔بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ’’عورت اپنے والدین کی وراثت کو بیچ کر عمرہ نہیں کرسکتی‘‘تو یہ درست نہیں،انہیں چاہئے کہ علم حاصل کریں،تاکہ صحیح اور غلط بات میں فرق ہو سکے۔

   انسان اپنے مال کا مالک ہے،اس میں جو تصرف کرنا چاہے کر سکتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’کل احد احق بمالہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین‘‘ترجمہ:ہر ایک اپنے مال کا اپنے والد،بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ حق دار ہے۔(سننِ دارِ قطنی،جلد5،صفحہ422،مطبوعہ،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

   فتاوی شامی میں ہے:’’الملک ما من شانہ ان یتصرف فیہ بوصف الاختصاص کما فی التلویح‘‘ ترجمہ:ملک کی شان یہ ہے کہ بندہ اس میں وصفِ خصوصیت کے ساتھ تصرف کر سکے،جیسا کہ تلویح میں ہے۔(فتاوی شامی،جلد5،صفحہ51،مطبوعہ دار الفکر)

   مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:’’کل یتصرف فی ملکہ کیف ما شاء‘‘ترجمہ:ہر ایک اپنی ملک میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے۔(مجلۃ الاحکام العدلیہ،جلد1،صفحہ230،المادہ1192،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم