Nafarman Bete Ko Jaidad Se Aaq Karne Ki Shari Haisiyat?

نافرمان بیٹے کو جائیداد سے عاق کرنے کی شرعی حیثیت؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Faj 5308

تاریخ اجراء:09رجب المرجب1440 ھ/17مارچ 2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا لڑکا میرا نافرمان ہے ۔  شادی کے ایک پروگرام میں مہمانوں کے سامنے اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور مجھے لاتوں اور ہاتھوں سے مارا اور مجھے بے حساب گالیاں دیں ، میری ملکیت میں تین مکان ہیں ۔ میرا بیٹا کہتا ہے کہ مکان بیچ کر مجھے میرا حصہ دیا جائے ، جبکہ میں اپنی زندگی میں اسے اپنے ان مکانوں میں سے کوئی بھی حصہ نہیں دینا چاہتا اور چاہتا ہوں کہ اس کواپنی زندگی میں ہی عاق کر دوں تاکہ میرے مرنے کے بعد بھی اسے میری وراثت سے کچھ نہ ملے۔ آپ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیامیرے اس طرح کرنے سے وہ میری وراثت سے محروم ہوگا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا  اور فرمایا ان کو اُف تک بھی نہ کہو، یعنی کوئی ایسا کلمہ بھی اپنی زبان پر نہ لاؤ ، جو ان پر گراں گزرے ۔ حدیثِ مبارک میں والد کی رضا کو اللہ تعالیٰ کی رضا ،والد کی ناراضی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی ارشاد فرمایا۔ والد کی نافرمانی کرنے والا ، ان پر ہاتھ اٹھانے والا ، گالیاں دینے والا سخت کبیرہ گناہ کا مرتکب ، فاسق و فاجر، سخت عذابِ الٰہی کا مستحق ہے، جب تک اپنےوالد کو راضی نہ کرلے ، اس کا کوئی فرض ، نفل  بلکہ کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں اورمعاذ اللہ مرتے قت کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے۔ ایسے شخص پر لازم ہے کہ فوراً اپنے والد کو راضی کرے، ورنہ دنیا و آخرت میں غضبِ الٰہی کے لئے تیار رہے، نیز شریعت میں ایسے نافرمان بیٹے کو عاق کہا جاتا ہے ، اگر چہ والد اسے عاق نہ کرے، البتہ جو لوگوں میں مشہورہے کہ کوئی والد اپنی اولاد کو عاق کر دے تو اس کو والد کی جائیداد سے کوئی حصہ نہیں ملتا ، یہ  لوگوں کی گھڑی ہوئی بات ہے ، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں،لہٰذا مذکورہ صورت میں آپ جب تک حیات ہیں ،اپنی جائیداد کے مالک ہیں ،مذکورہ بیٹے کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے کہ جس کا وہ مطالبہ کرے ، البتہ جب آپ کا انتقال ہوجائے اور مذکورہ بیٹا حیات ہو ، تو اس صورت میں دیگر ورثاء کے ساتھ وہ بھی آپ کی وراثت میں حصہ دار ہو گا ،یہی رب العالمین کا حکم ہے۔ اس کا آپ کی نافرمانی کرنا یا آپ کا اس کو عاق کردینا  ، اس کووراثت سے محروم نہیں کر سکتا ۔

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنۡدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوْکِلٰھُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوْلًاکَرِیۡمًا﴿۲۳﴾ وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا﴾ترجمۂ کنزالایمان:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں،تو ان سے ”ہُوں“ نہ کہنا،اور انہیں نہ جھڑکنا، اور ان سے تعظیم کی بات کہنااور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا  نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب !تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن (یعنی بچپن)میں پالا۔

(سورۂ بنی اسرائیل، آیت 23،24)

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”رضا الرب فی رضا الوالد ، وسخط الرب فی سخط الوالد“یعنی والد کی رضا میں رب کی رضا ہے ، والد کی ناراضی میں رب کی ناراضی ہے۔

(سنن الترمذی ، حدیث 1907 ، صفحہ 566 ، مطبوعہ: بیروت)

    ایک اور حدیث پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”من الکبائر ان یشتم الرجل والدیہ، قالوا:یارسول اللہ! وھل یشتم الرجل والدیہ؟ قال:نعم ، یسب ابا الرجل  فیشتم اباہ ، ویشتم امہ فیشتم امہ“یعنی کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے ،صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ!کیا کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ فرمایا: ہاں ، یہ کسی کے باپ کو گالی دے  تووہ اس کے باپ کو گالی دے ۔اور یہ کسی کی ماں کو گالی دے تو وہ اس کی ماں کو گالی دے۔

(سنن الترمذی ، حدیث 1909 ، صفحہ 566 ، مطبوعہ: بیروت)

    مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”فرمایا: ہاں یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ کوئی بیٹا اپنے ماں باپ کو گالی دے ۔ سبحان اللہ! وہ زمانہ قدسیوں (پاکیزہ ہستیوں) کا تھا کہ یہ جرم ان کی عقل میں نہ آتا تھا ، اب تو کھلم کھلا نا لائق لوگ اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں ، ذرا شرم نہیں کرتے“

(مرآۃ المناجیح، جلد 6 ، صفحہ  366 ، حسن پبلشرز ، لاھور)

    امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”پسرِ مذکور، فاسق، فاجر، مرتکبِ کبائر، عاق ہے اور اسے سخت عذاب وغضبِ الٰہی کا استحقاق، باپ کی نافرمانی اللہ جبار وقہار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللہ جبار وقہار کی ناراضی ہے ، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں۔جب تک باپ کو راضی نہ کرےگا اس کا کوئی فرض ، کوئی نفل ، کوئی عملِ نیک اصلاً قبول نہ ہوگا۔عذابِ آخرت کے علاوہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلا نازل ہوگی، مرتے وقت معاذ اللہ کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے“

(فتاوی رضویہ ، جلد 24 ، صفحہ383 ، 384 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    اولاد کاحصہ بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوْلَادِکُمْ ٭لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ﴾ترجمۂ کنزالایمان:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں  بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ۔

(سورۂ نساء ، آیت 11)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جوشخص فی الواقع عاق ہوتو اس کا اثر امورآخرت میں ہے کہ اگراﷲ عزوجل والدین کوراضی کرکے اس کاگناہ معاف نہ فرمائے تو اس کی سزا جہنم ہے، والعیاذ باللہ، مگرمیراث پراس سے کوئی اثرنہیں پڑتا، نہ والدین کالکھ دیناکہ ہماری اولاد میں فلاں شخص عاق ہے ہماراترکہ اسے نہ پہنچے اصلاً وجہ محرومی ہوسکتاہے کہ اولاد کاحقِ میراث قرآن عظیم نے مقررفرمایاہے والدین خواہ تمام جہان میں کسی کالکھا اﷲ عزوجل کے لکھے پرغالب نہیں آسکتا ولہٰذا تمام کتب فرائض وفقہ میں کسی نے اسے موانع ارث سے نہ گنا۔ “

(فتاوی رضویہ ، جلد 26 ، صفحہ 181 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم