Mehfil e Milad Se Bach Jane Wale Chande Ka Hukum?

محفلِ میلاد وغیرہ سے بچ جانے والے چندے کا حکم؟

مجیب:مولانا سرفراز اختر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Har-4168

تاریخ اجراء:17شوال المکرم1438ھ/12جولائی2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ گیارہویں،بارہویں وغیرہ کی محفل کے لیے جمع کیے جانے والے چندہ میں سے اگر کچھ رقم بچ جائے ، تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

سائل:محمد جنید عطاری(حیدر آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     چندہ جس غرض کے لیے جمع کیا جائے ، اسی میں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے،اسے کسی دوسری غرض میں خرچ نہیں کر سکتے ، لہٰذا گیارہویں، بارہویں وغیرہ کی محفل کے لیے جمع کیا جانے والا چندہ اگربچ جائے ، تو اسے کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کر سکتے ، بلکہ ضروری ہے کہ اگر دینے والے یا ان کے انتقال کر جانے کی صورت میں ان کے ورثا معلوم ہوں ، تو بحصہ رسد ان کو دے دیں یا جس کام میں خرچ کرنے کی وہ اجازت دیں ، اسی میں خرچ کریں ، ہاں اگر معلوم نہ ہوں ، تو بچ جانے والا وہ چندہ مثلِ مالِ لقطہ ہے اور کسی بھی نیک و جائز کام مثلاً کسی محفل یا مسجد و مدرسہ میں بھی خرچ کر سکتے ہیں اور کسی فقیر پر بھی صدقہ کر سکتے ہیں۔

     صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی چندہ کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” دینے والے جس مقصد کے لئے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے لئے اپنی جائداد وقف کرے اوسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صرف کی جا سکتی ہے۔دوسرے میں صرف کرنا ، جائز نہیں مثلاً اگر مدرسہ کے لئے ہو تو مدرسہ پر صرف کی جائے اور مسجد کے لئے ہو تو مسجد پر ۔“

(فتاوی امجدیہ،ج3،ص42،مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)

     سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا  کہ ایک مخصوص مد میں جمع کیا جانے والا چندہ بچ گیا ہے ، کیا اسے مسجد میں خرچ کر سکتے ہیں ؟تو آپ نے جواباً فرمایا:”چندہ جس کام کے لئے کیا گیا ہو جب اس کے بعد بچے تو وہ انھیں کی ملک ہے جنہوں نے چندہ دیا ہے کما حققناہ فی فتاونا (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنی فتاوی میں کی ہے)ان کو حصہ رسد واپس دیا جائے یا جس کام میں وہ کہیں ، صَرف کیا جائے،اور اگر دینے والوں کا پتا نہ چل سکے کہ ان کی کوئی فہرست نہ بنائی تھی نہ یاد ہے کہ کس  کس نے دیا اور کتنا دیا ، تو وہ مثل مال لقطہ ہے ، اسے مسجد میں صرف کر سکتے ہیں۔“

(فتاوی رضویہ،ج16،ص247،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

     سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”چندہ کا روپیہ چندہ دینے والوں کی ملک رہتا ہے جس کام کے لئے وہ دیں جب اس میں صرف نہ ہو تو فرض ہے کہ انھیں کو واپس دیا جائے یا کسی دوسرے کام کے لئے وہ اجازت دیں ان میں جو نہ رہا ہو ان کے وارثوں کو دیا جائے  یا ان کے عاقل بالغ جس کام میں اجازت دیں،ہاں جو ان میں نہ رہا  اور ان کے وارث بھی نہ رہے یا پتا نہیں چلتا یا معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس کس سے لیا تھا ،کیا کیا تھا،وہ مثل مال لقطہ ہے،مصارف خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت و مطبع اہل سنت وغیرہ میں صرف ہو سکتا ہے، وھو تعالی اعلم۔“

(فتاوی رضویہ،ج23،ص563،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)                                                                                                                                                                                                                                                   

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم