Masjid Ki Waqf Dukan Urf Se Kam Kiraye Par Dena Kaisa?

 

مسجد کی وقف دکان عرف سے کم کرائے پر دینا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8950

تاریخ اجراء: 18ذو الحجۃ الحرام  1445 ھ / 25 جون 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارے میں کہ

   (1) مسجد کی وقف دکانوں کو کتنے کرایہ پر دیا جائے ؟ کیا عرف  سے کم کرایہ پر دکانیں دی جا سکتی ہیں؟

    (2) کیا منتظم خود وقف کی دکانوں کو کرایہ پر لے سکتا ہے ؟

    (3) مسجدکی موٹر چلا کر کوئی شخص اپنی دکانوں وغیرہ کے سامنے پانی کا چھڑکاؤ کر سکتا ہے؟ جب کہ وہ کہے کہ میں اس کا بل ادا کر دوں گا۔

   (4) مسجد میں نمازیوں کے لیے رکھے ہوئے پانی کے کولر سے کوئی شخص پانی کی بوتلیں وغیرہ بھر کر اپنے گھر لے جا سکتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) مسجد کی وقف دکان کو اجرتِ مثل (یعنی اس جیسی دکان کا اس علاقے میں جو کرایہ چل رہا ہو، اس ) کے بدلے کرائے پر دینا جائز ہے،انتظامیہ کا وقفی دکان کو اجرتِ مثل سے کم کرائے کے بدلے دیناجائز نہیں،  اگر   منتظم وغیرہ نے اس علاقے میں معروف و  رائج کرایہ سے کم کرایہ پر دیا،  تب بھی کرایہ دار پر لازم ہے کہ  ہر ماہ اجرتِ مثل کے مطابق پورا کرایہ ادا کرے۔

   (2)  منتظم کا خود  وقفی دکان  کو کرایہ پر  لینا جائز نہیں  ، نہ ہی اپنے والد یا اولاد کو دینا جائز  ہے، البتہ اگر  منتظم  خود اجرتِ مثل سے زیادہ  کرائے پر لے  یا اپنے والد یا اولاد کو  اجرتِ مثل سے زیادہ   کرایہ پر دے تو جائز ہے ۔  

   (3)  مسجد  کے پمپ  کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا ، اس سے اپنے گھر یا دکان وغیرہ کے سامنےپانی کا  چھڑکاؤ کرنا  ہرگز جائز نہیں ،  اگرچہ ایسا شخص کہے کہ میں   اس کا  بل ادا کر  دوں گا ، کیونکہ مسجد کی اشیا  صرف مسجد کے کاموں میں استعمال ہو سکتی ہیں ، کسی دوسرے کام و مصرف میں استعمال کرنا ناجائز و گناہ ہے   حتی کہ  فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مسجد کا چراغ تک گھر میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔

   (4) نمازیوں کے لیے رکھے ہوئے کولر سے اپنے گھر پانی بھر کر لے جانا  بھی ناجائز و گناہ ہے  ، لہٰذا ایسے افراد پر توبہ و استغفار کرنا بھی ضروری  ہے اور اب تک مسجد کی جو بجلی و پانی استعمال کیا  ، اس کا تاوان دینا بھی ضروری ہے ۔

   وقف کی دکان کو اجرتِ مثل کے بدلے کرایہ پر دینا ضروری ہے ، چنانچہ مجمع الانہر میں ہے : واعلم أن إجارة الوقف لا تجوز إلا بأجر المثل لو أكثر، ولو آجر الناظر بدون أجر المثل لا تصح الاجارة، ويلزم المستأجر تمام أجر المثل ترجمہ :  اور جان لو  کہ وقفی مکان و دکان وغیرہ  کو اجرتِ مثل کے بدلے کرائے  پر دینا ضروری  ہے ، اگرچہ اجرتِ مثل زیادہ ہو اور  اگر متولی نے اجرتِ مثل سے کم پر دیا ، تو یہ اجارہ درست نہیں ہوگا اور کرایہ دار پر  پوری اجرتِ مثل دینا ضروری  ہوگا ۔(مجمع الانھر  ، کتاب الاجارہ، جلد 2 ، صفحہ 370 ، مطبوعہ بیروت )

   بحرالرائق میں ہے :إذا أجر بأقل من أجرة المثل فإن كان بنقصان يتغابن الناس فيه فهي صحيحة وليس للمتولي فسخها وإن كان بنقصان لا يتغابن الناس فيه فهي فاسدة وله أن يؤاجرها إجارة صحيحة إما من الأول أو من غيره بأجر المثل وبالزيادة على قدر ما يرضى به المستأجر فإن سكن المستأجر الأول وجب أجر المثل بالغا ما بلغ وعليه الفتوى وإن كانت الاجارة الأولى بأجرة المثل ثم ازداد أجر مثله كان للمتولي أن يفسخ الاجارة وما لم يفسخ كان على المستأجر الأجر المسمى   ترجمہ : اگر متولی  نے اجرتِ مثل سے کم کرائے پر دیا  ،تو اگر اتنی کمی کی  جو عموماً لوگ کرتے ہیں،تو  اجارہ صحیح ہے  اور متولی اس عقد کو ختم نہیں کرے گا  اور اگر اجرت میں اتنی کمی کی جو عموماً لوگ برداشت نہیں کرتے ، تو یہ اجارہ فاسد ہے، متولی کے لیے حکم ہے کہ وہ  اجرتِ مثل کے ساتھ یا کرایہ دار راضی ہو ،تو اس سے بھی زیادہ اجرت پر  درست اجارہ کرے ،  خواہ اسی پہلے شخص کے ساتھ ہی یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ  ، اگر پہلا کرایہ دار ہی رہنا چاہے ، تو اس پر اجرتِ مثل ادا کرنا واجب ہے ، وہ جتنی بھی بنے، اسی پر فتویٰ ہے ۔ پھر  اگر اجرتِ مثل بڑھ جاتی ہے ، تو متولی سابقہ اجارہ کو ختم کر ے  ، البتہ جب تک متولی  اجارہ ختم نہیں کرتا ، کرایہ دار طے شدہ کرایہ  ادا کرے گا ۔(بحر الرائق ، کتاب  الوقف ، جلد 5 ، صفحہ 256  ، مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی )

   بہارِ شریعت میں ہے :اوقاف کو اجر مثل کے ساتھ کرایہ پر دیا جائے یعنی اس حیثیت کے مکان کا جو کرایہ وہاں ہو یا اس حیثیت کے کھیت کا جو لگان  اُس جگہ ہواُس سے کم پر دینا جائز نہيں ،بلکہ جس شخص کو اوقاف کی آمدنی ملتی ہے، وہ خود بھی اگر چاہے کہ کرایہ یا لگان کم لے کر د ے دوں ،تو نہيں دے سکتا... متولی نے اجر مثل سے کم کرایہ پر اجارہ دیا، تولینے والے کو اجر مثل دینا ہوگا اور اُجرت کا ذکر نہ کیا جب بھی یہی حکم ہے۔‘‘(بھارِ شریعت ،جلد 2 ، صفحہ 589 ،مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   منتظم خود وقفی مکان و دکان  وغیرہ  کو کرایہ پر  نہیں لے سکتا ، ہاں !  اجرتِ مثل سے زیادہ کرایہ پر لے سکتا ہے ، چنانچہ بحرالرائق میں ہے : لو آجر الوقف من نفسه أو سكنه بأجرة المثل لا يجوز وكذا إذا آجره من ابنه أو أبيه أو عبده أو مكاتبه للتهمة ... إلا بأكثر من أجر المثل ‘‘ ترجمہ : اگر متولی   نے اجرتِ مثل کے بدلے  وقفی مکان وغیرہ کو خود کرایہ پر  لیا  اور اس میں رہائش اختیار کر لی ،تو یہ جائز نہیں ، یونہی متولی کا اپنے بیٹے یا والد یا غلام یا مکاتب غلام کو کرایہ پر دینا بھی جائز نہیں کہ اس میں تہمت کا امکان ہے ، ہاں ! اگر اجرتِ مثل  سے زیادہ کرایہ پر لے ، تو جائز ہے ۔(بحرالرائق ، کتاب الوقف ، جلد 5 ، صفحہ 254 ، مطبوعہ  دارالکتاب الاسلامی)

   بہارِشریعت میں ہے:وقفی زمین کو متولی خود اپنے اجارہ ميں نہيں لے سکتا کہ خودمکانِ موقوف ميں رہے اور کرایہ دے یا کھیت بوئے اور لگان دے  ،البتہ قاضی اس کو اجارہ پر دے ،تو ہوسکتا ہے۔ اور اجر مثل سے زیادہ کرایہ پر لے ،تو ہوسکتا ہے۔ یوہيں اپنے باپ یا بیٹے کو بھی کرایہ پر نہيں دے سکتا  ،مگر جب کہ بہ نسبت دوسروں کے ان سے زیادہ کرایہ لے۔ (بھارِ شریعت، جلد 2 ، صفحہ 589 ،مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   کسی شخص کا مسجد کے پمپ    کو ذاتی و گھریلو  استعمال میں  لانے کی ہرگز اجازت نہیں ، اگرچہ بل ادا کر  دے  ، حتی کہ  فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مسجد کا چراغ تک گھر میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ”متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد   إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد “ ترجمہ: مسجد کے متولی کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مسجد کا چراغ  گھر میں لے جائے ، ہاں گھر کا چراغ مسجد میں لا سکتا ہے۔(فتاوی عالمگیری ،کتاب الوقف ، جلد2،صفحہ462، مطبوعہ کوئٹہ )

   بہارشریعت میں ہے : ”مسجد کی اشیا ،  مثلاً: لوٹا ، چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے ،مثلاً: لوٹے میں پانی بھر کر اپنے گھر نہیں لے جاسکتے ،اگرچہ یہ ارادہ ہو کہ پھر واپس کر جاؤں گا۔ اُس کی چٹائی اپنے گھر یا کسی دوسری جگہ بچھانا نا جائز ہے۔ یوہیں مسجد کے ڈول ، رسی سے اپنے گھر کے ليے پانی بھر نا یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا نا جائز ہے۔“ (بھارشریعت،جلد2،حصہ10،صفحہ561،562،مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   خلیلِ ملت مفتی محمد خلیل خان قادری برکاتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1405ھ/1985ء)  سے سوال ہوا کہ مسجد کا پانی ، بجلی اور دیگر چیزیں عام استعمال کر سکتے ہیں ؟ تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنے جواباً ارشاد فرمایا : مسجد کی اشیاء صرف مسجد میں استعمال ہوسکتی ہیں، مسجد کے علاوہ کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے۔ “             ( فتاویٰ خلیلیہ ، جلد 2 ، صفحہ 579 ،  مطبوعہ ضیاء القرآن  پبلی کیشنز، لاھور )

   مسجد کا پانی بھر کے گھر نہیں لے جا سکتے  ،چنانچہ فتاوی مصطفویہ میں ہے”: اگر نل لگانے والے کی خاص مسجد ہی کے لیے نیت ہو کہ وضو و غسل وغیرہ نماز کے لیے طہارت ہی کے کام میں لیا جائے یا اس نل کے پانی کی قیمت مسجد کے مال سے ادا کی جاتی ہو ، تو گھروں کو لے جانا ،جائز نہیں۔ (فتاویٰ مصطفویہ،  احکامِ مسجد ، صفحہ 269 ، مطبوعہ   شبیر برادرز )

   وقار الفتاویٰ میں ہے :ہندوستان میں پہلے جاڑوں میں پانی گرم کرنے کے لیے مسجد میں سقایہ بنے ہوتے تھے  ، ان میں آگ جلا کر پانی گرم کیا جاتا تھا ، اس سقایہ کی  آگ سے چلم بھرنا بھی ناجائز ہے ، اس لیے مسجد کا پانی کوئی شخص گھر نہیں لے جا سکتا ، صرف مسجد میں استعمال کر سکتا ہے ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو لوگ پانی  گھروں میں لے جاتے ہیں ، وہ گناہ گار ہیں ، انہیں توبہ کرنی چاہیے ۔(وقار الفتاویٰ ، جلد 2، صفحہ 317 ، مطبوعہ بزم وقار الدین )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم