مجیب:مفتی ابوالحسن محمد
ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:Lar-11928
تاریخ اجراء:22شعبان المعظم1444ھ/15مارچ2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و
مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے
کے بارے میں کہ ہم ختم قرآن کےلیے رقم جمع کرتے
ہیں، جس سے شیرینی
، امام ،مؤذن ،سامع اور حافظ صاحب کے لیے تحائف خریدتے
ہیں،جبکہ حافظ صاحب سے کیےگئے
اجارے کو مسجد کے چندے سے ادا کرتے ہیں۔کیا مسجد کے چندے
سے حافظ صاحب کو اجرت دینا جائز
ہے۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورت ِمسئولہ میں اولاً یہ جان لیں
کہ حافظ صاحب کا تروایح پڑھانےکے بدلے
اجرت لینا یا اجرت تو طے نہ کی ہو،مگر انتظامیہ کو معلوم ہو کہ
تراویح کے بعد کچھ دیناہے اور حافظ صاحب کو بھی معلوم ہو کہ کچھ ملے گا، تو ان دونوں
صورتوں میں لینا اوردینا جائز نہیں، نہ مسجد کے چندے سے اور نہ ہی
اس کے علاوہ کسی اور رقم سے، ہاں اگر
تراویح پڑھانے والا وقت کا اجارہ کرلے ، تووقت کے مطابق اس کا اجرت
لینا جائز ہے،البتہ اس اجرت کو مسجد
کے چندے سے دینے میں تفصیل
درج ذیل ہے :
مساجد
کے مصارف کے لیے جمع ہونے والی
رقم عموماًدو طرح کی ہو تی ہے:(1)وقف کی آمدنی (2)
لوگوں کے عطیات ۔
مسجد
کے مصارف اگروقف کی آمدنی سے کیے جاتے ہیں ،تو اس میں
شرطِ واقف کا اعتبارہو گا یعنی
واقف نے وقف کرتے وقت جملہ اخراجات کے ساتھ اس مَد میں بھی خرچ کرنے کی اجازت
دی یا خرچ کو متولی کی صوابدید پر موقوف رکھا یوں
کہ متولی مسجد سے متعلق اُمور میں جہاں مناسب سمجھے خرچ کرے ،تو ان صورتوں
میں حافظ صاحب کو مسجد کی آمدنی سے اجرت دینا جائز
ہے ۔
اگرواقف
کی طرف سے ایسی کوئی صراحت نہیں تھی،تو زمانہ
قدیم سے اس معاملے میں متولیوں کا کیا معمول رہا ہے؟ اس کو
دیکھا جائے گا۔ متولی حضرات مسجد کےمِنْ جُملہ اَخراجات میں
اس خرچ کو بھی شامل کرتے رہے ہیں، تو حافظ صاحب کو اس آمدنی
سے اجرت دینا جائز ہو گا ،اگر زمانہ
قدیم سے متولیوں کا ایسا کوئی معمول نہیں رہا، تو اجرت
دینا جائز نہ ہو گا ۔
مسجد
کی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ لوگوں کے عطیات ہیں
، فی زمانہ مساجد و مدارس کی آمدنی کا زیادہ تر مَدار
انہی پر ہے، لہٰذا اس صورت میں
جواز و عدم جواز کا مدار چندہ دینے والوں کی طرف سے صراحتا ًیا دلالۃ
اجازت پر موقوف ہو گا ۔یعنی جہاں چندہ دینے والوں کو معلوم ہے کہ حافظ و سامع صاحب کو اجرت ان کے عمومی عطیات
سے دی جاتی ہے ،اس پر ان کی طرف سے کوئی تعارض نہیں
ہو تا، تو وہاں مسجد کے عمومی عطیات سے اجرت دینا بھی جائز
ہو گا ۔
اور
جہاں مسجد کے عطیات سے حافظ صاحب کو عطیات دینے کا عر ف نہیں اور نہ ہی چندہ دینے والوں کے ذہنوں میں مسجد
کے مِنْ جملہ اخراجات میں سے یہ اخراجات معہود و معروف ہیں ،تو ایسی
مساجد میں مسجد کےعطیات سے حافظ صاحب کو اجرت دینا جائز نہ ہوگا ۔
طاعات
پر اجارہ کرنے کے حوالے سے درمختار میں ہے :’’لا تصح الاجارۃ۔۔ لِأَجل الطاعات ۔۔ویفتی
الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقہ والامامۃ والاذان “ ترجمہ:طاعات پر اجارہ جائز نہیں اور اب فتوی
قرآن و فقہ کی تعلیم اور امامت واذان کی اجرت کے درست ہونے
پر ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے:” وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن
مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد
في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.وزاد بعضهم الأذان والإقامة
والوعظ“ ترجمہ:کنزالدقائق ، مواہب الرحمٰن کے متون
اورکثیر کتب میں تعلیم قرآن کے استثناء پر اقتصار کیا ہے اور
مختصر الوقایہ میں اور الاصلاح کے متن میں تعلیم فقہ کا اضافہ
کیا ہے اور مجمع کے متن میں امامت کا اضافہ کیا ،اسی کی
مثل ملتقی اور درر البحار کے متن میں ہے ۔اور بعض نے اذان ،اقامت
اور وعظ کا اضافہ کیا ہے ۔(در مختارمع
ردالمحتار،کتاب الاجارۃ ،جلد9،صفحہ92،94،مطبوعہ
کوئٹہ)
تلاوت
قرآن پر اجرت کے ناجائز ہونے کے متعلق رد المحتار
میں ہے :” قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة
لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا،
والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛
لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ
ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد
في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا
إليه راجعون “ترجمہ:تاج الشریعہ نے شرح ہدایہ میں
فرمایا :بے شک اجرت پر قرآن پڑھنے سے ثواب نہیں ملتا، نہ میت کو
اور نہ پڑھنے والے کو ۔اور علامہ عینی نے شرح ہدایہ میں
فرمایا:دنیا کے لیے پڑھنے والے کو روکا جائے اور لینے والا
اور دینے والا دونوں گنہگار ہیں، تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے زمانے
میں جو اجرت پر پارے پڑھنے کا رواج ہوگیا ہے یہ جائز نہیں،کیونکہ
اس میں تلاوت کا حکم دینا ہے اور پھر (پڑھنے والے کی طرف سے)حکم
دینے والے کو ثواب دینا ہے اور یہ پڑھائی مال کے لیے
ہے، تو جب پڑھنے والے کو ہی نیت درست نہ ہو نے کی وجہ سے کوئی
ثواب نہیں ملتا،تو مستاجر (اجرت پر پڑھائی کروانے والے)کو ثواب کہاں سے
ملے گا ۔اور اگر اجرت نہ ہو،تو اس زمانے میں کوئی کسی کے لیے
نہ پڑھے، بلکہ ان لوگوں نے قرآن عظیم کو کمائی کا ذریعہ اور دنیا جمع کرنے کا طریقہ بنالیا ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔(ردالمحتار،کتاب الاجارۃ
، مطلب تحریر مھم۔۔۔،جلد9،صفحہ95،مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
فرما تے ہیں:’’اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتاہے ،عرفاًشرط معروف ومعہود
سے بھی ہوجاتاہے، مثلاً: پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا،مگر جانتے
ہیں کہ دیناہوگا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا،انہوں نے اس طور
پرپڑھا، انہوں نے اسی نیت سے پڑھوایا ،اجارہ ہوگیا ،اب دو
وجہ سے حرام ہوا، ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ،دوسرے اجرت اگر عرفاً
معین نہیں، تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسدہ ۔یہ دوسراحرام۔۔۔پس
اگرقراردادکچھ نہ ہو،نہ وہاں لین دین معہودہوتاہووبعدکوبطورِصلہ وحسنِ
سلوک کچھ دے دیناجائز،بلکہ حسن ہوتا،﴿ہَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا
الْاِحْسَانُ﴾احسان کی جزاء صرف احسان ہے ،اوراللہ تعالیٰ
احسان کرنے والوں کو پسندفرماتاہے۔مگرجبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے
،توصورت ثانیہ میں داخل ہوکرحرام محض ہے ۔“
اوراس
کے حلال ہونے کی صورتوں کے متعلق ارشادفرماتے
ہیں:’’اب اس کے حلال ہونے کے دوطریقے ہیں :اوّل یہ کہ قبل
قراء ت پڑھنے والے صرا حۃً کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے، پڑھوا نے
وا لے صاف انکار کر دیں کہ تمہیں کچھ نہ دیا جا ئے گا، اس شرط کے
بعد وہ پڑھیں اور پھر پڑھوا نے والے بطورِ صلہ جو چا ہیں دے دیں
یہ لینا دینا حلال ہوگا۔۔۔دوم پڑھوا نے وا لے
پڑھنے وا لوں سے بہ تعیینِ وقت و اُجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے وا لوں کو اجارے میں
لے لیں، مثلاً:یہ ان سے کہیں ہم نے صبح سات بجے سے با رہ بجے تک
بعوض ایک رو پیہ کے اپنے کام کاج کے لیے اجارہ میں لیا،وہ
کہیں ہم نے قبول کیا، اب یہ پڑھنے وا لے اتنے گھنٹو ں کے لیے
ان کے نو کر ہو گئے، وہ جو کام چا ہیں لیں، اس اجا رہ کے بعد وہ ان سے
کہیں اتنے پا رے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثوا ب فلاں کو بخش دو یا
مجلس میلاد مبارک پڑھ دو یہ جا ئز ہو گا اور لینا دینا حلال
’’لان الاجارۃ وقعت علی منافع ابدانھم
لاعلی الطاعات والعبادات ‘‘یعنی
کیونکہ یہ اجارہ ان کے ابدان سے انتفاع پرہواہے، نہ کہ ان کی عبادات
اورطاعات پرہواہے۔‘‘ ( فتاوی رضویہ،
جلد19،ص487،488مطبوعہ رضا فا ؤنڈیشن ،لا ھور )
صدرالشریعہ
بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:’’آج کل اکثر رواج ہوگیا ہے کہ حافظ کو اُجرت دے کر تراویح
پڑھواتے ہیں، یہ ناجائز ہے ۔دینے والا اور لینے والا
دونوں گنہگار ہیں، اُجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر
کر لیں کہ يہ ليں گے یہ دیں گے، بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں
کچھ ملتا ہے، اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو، یہ بھی ناجائز ہے کہ” اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطِ “ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا یا
نہیں لُوں گا، پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کریں، تو اس میں
حرج نہیں کہ’’ اَلصرِیحُ يفوقُ الدلالۃ۔‘‘ (بھارشریعت،جلد1،حصہ 4،صفحہ692،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اوقاف
کی آمدنی خرچ کرنے سے متعلق
سیدی اعلیٰ حضرت مجدددین
وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ
میں فرماتےہیں :’’حکم شرعی یہ ہے کہ اوقاف میں پہلی
نظر شرط واقف پر ہے، یہ دوکانیں اُس نے جس غرض کے لیے مسجد پر وقف
کی ہوں، ان میں صرف کیا جائے گا، اگرچہ وہ افطاری و شیرینی
و روشنی ختم شریف ہو اور اس کے سوا دوسری غرض میں اُس کا صرف
کرنا حرام حرام سخت حرام،اگرچہ وہ بناء مدرسہ دینیہ ہو ،واقف کی
شرط ایسے ہی واجب العمل ہے جیسے شارع علیہ السلام کی نص۔حتی
کہ اگر اس نے صرف تعمیر مسجد کے لیے رقم وقف کی تو مرمت شکست و ریخت(یعنی
ٹوٹ پھوٹ کی مرمت) کے سوا مسجد کے لوٹے ،چٹائی میں بھی صرف
نہیں کرسکتے اور افطاری وغیرہ میں درکنار،اور اگر مسجد کے
مصارف رائجہ فی المساجد (یعنی مسجدوں میں جن چیزوں میں
خرچ کرنے کا عرف ہواُن) کے لیے وقف ہے،تو بقدر معہود (یعنی عرف کی
مقدارمیں)شیرینی و روشنی ختم (شریف) میں
صرف کرنا، جائز مگر افطاری و مدرسہ میں ناجائز،نہ اسے تنخواہ مدرسین
وغیرہ میں صرف کر سکتے ہیں کہ یہ اشیاء مصار ف مسجد
سے نہیں (جب خود واقف کے لیے کسی نئی چیزکا احداث وقف
میں جائز نہیں، تومحض اجنبی شخص کے لیے کیسے ہوسکتا ہے) او راگر اس نے ان چیزوں
کی بھی صراحتہ اجازت شرائط وقف میں رکھی یا مصارف خیر
کی تعمیم کردی یا یوں کہا کہ دیگر مصارف خیر
حسب صواب دید متولی،توان میں بھی مطلقاً یا حسب صواب
دید متولی صرف ہوسکے گا۔غرض ہر طرح اس کے شرائط کا اتباع کیا
جائے گا اور اگر شرائط معلوم نہیں، تو
اس کے متولیوں کا قدیم سے جو عملدرآمد رہا ہو اس پر نظر ہوگی،
اگر ہمیشہ سے افطاری و شیرینی و روشنی ختم کل
یا بعض میں صرف ہوتا رہا ،اس میں اب بھی ہوگا ورنہ اصلاً نہیں اور احداث مدرسہ بالکل ناجائز۔(فتاوی رضویہ ج16،ص485،486،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،
لاھور)
چندہ دینے والوں کی طرف سے صراحتاً
یا دلالۃ اجازت کے بارے میں سیدی اعلی حضرت امام
احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’زر چندہ شرعاً ملک چندہ دہندہ
پر باقی رہتا ہے کما حققناہ فی
فتاوٰنا (جیساکہ
ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت)
اس میں اجازت چندہ دہند گان پر مدار ہے،اگر قدیم سے معمول یتیم
خانہ رہا ہو کہ جو یتیم حدیتیم شرعی سےنکل کر بالغ ہو
جائیں اور وہ بھی اپنے لیے رزق حلال کسب کرنے کے قابل ہونے تک ان
کو یتیم خانہ میں رکھا جاتا
اور زرچندہ سے ان کا خرچ کیا جاتا ہو، چندہ دہندگان اس پر آگاہ ہوا کیے
اور اس پر راضی رہا کیے، تو اب بھی جائز ہے، لان المعروف کالمشروط والاجازۃ دلالۃ کالاذن الصریح (کیونکہ معروف چیز مشروط چیز
کی طرح ہوتی ہے اور دلالۃً اجازت بھی صریح اجازت کی
طرح ہے۔ت) اور اگر پہلے سے یہ معہود اور معروف نہ رہا اور اب تمام چندہ
دہندوں سے اجازت لینی ممکن ہو،تو اجازت لے کر کرسکتے ہیں، لان المال لھم فیصرف باذنھم ولیس ھذاخلاف سبیل
البرحتی یکرہ لھم الرجوع عنہ بل ربما یؤیدہ ویرغب الیتامٰی
فی دخول ھذہ الجمیعۃ‘‘
کیونکہ مال ان کا ہے، اس لیے ان
کی اجازت سے خرچ کیاجائے اور یہ راہ نیکی کے خلاف نہیں
ہے ،حتی کہ واپس لینا مکرو ہ ہے، بلکہ اس میں نیکی کےلیے
رغبت ہے اور یتیموں کو اس اجتماعیت میں شرکت کی رغبت
ہوسکتی ہے۔۔۔ اوراگر وہ یتیم حالت یتم سے
یتیم خانہ میں تھے اور بعد ظہور بلوغ یا پندرہ سال کی
عمر پوری ہونے کے یتیم خانہ سے ان پر صرف کیاگیا اور
اجازت مذکورہ نصاً یاعرفاً ثابت نہ تھی، تو سال بھر سے زائد یہ مواخذہ
ذمہ مہتممان لازم اور تاوان ادا کرنا واجب ہوچکا۔‘‘ ( ملخص ازفتاوی
رضویہ، جلد16،ص242،مطبوعہ رضا فاونڈیشن
،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
چندے کی رقم سے قبرستان کے لیے جگہ خریدنا کیسا؟
مسجد کے فنڈ سے کمیٹی ڈالنا کیسا؟
مسجد کے لیے قرض لینے کے احکام
امام وموذن کو ماہانہ یا سالانہ کتنی چھٹیاں کرنے کی اجازت ہے؟
کیا عین مسجد میں سیڑھی بنائی جاسکتی ہے؟
مدرسے کاچندہ ذاتی استعمال میں لانے کاحکم
جو مسجد چھوٹی پڑچکی ہو کیا اس جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ خرید سکتے ہیں؟
مدرسے کے لئے پلاٹ دینے کے بعد کیا واپس لے سکتے ہیں؟