مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7705
تاریخ اجراء: 09 جمادی الاخریٰ 1443ھ/13 جنوری 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں
کہ مسجد کا متولی مسجد کا چندہ کسی
ضرورت مند یا کاروبار کرنے والے
کو بطورِ قرض دیتا ہے ، ایسا
کرنا شرعاً کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسجد کا چندہ مسجد میں کیے جانے والے عمومی
اخراجات ، مثلاً :تعمیرات ، امام و مؤذن ، خادمین کے وظائف اور صفائی
ستھرائی میں ہونے والے اخراجات وغیرہ کے لیے دیا جاتا ہے ، اسے اِنہی مصارف میں استعمال
کرنا ضروری ہے ، ذاتی استعمال
میں لانا، کسی کو بطور ِقرض دینا یا مصارفِ مسجد کے علاوہ میں خرچ
کرنا ، ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا پوچھی گئی
صورت میں مسجد کے متولی کا
لوگوں کو کاروبار وغیرہ کےلیے
مسجد کا چندہ دینا ناجا ئز
و گناہ ہے ،اس پر لازم ہے کہ آئندہ کےلیے اس سے سچی توبہ کرے
اور چندے کی جتنی رقم قرض میں
دی ہے ، اس
کا تاوان بھی مسجدکو ادا
کرے۔
مسجد کاچندہ مسجد کے
عمومی اخراجات میں استعمال کرنا ضروری ہونے کے متعلق صدرالشریعہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’جب عطیہ و
چندہ پر آمدنی کا دارومدار ہے ، تو دینے والے جس مقصد کے لیے
چندہ دیں یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے متعلق اپنی
جائیداد وقف کرے ، اُسی مقصد
میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جاسکتی ہے ، دوسرے میں
صرف کرنا ،جائز نہیں ، مثلاً اگر
مدرسہ کے لیے ہو، تو مدرسہ پر صَرف کی جائے اور مسجد کے لیے
ہو، تو مسجد پر (خرچ کرنا ضروری ہے)۔“ (فتاوی امجدیہ ، جلد3،
صفحہ 42، مکتبہ رضویہ ، کراچی )
اور مسجد کی رقم
بطورِ قرض دینے کے عدم ِ جواز کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری حنفی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:” أن القيم ليس له إقراض مال المسجد “ترجمہ:متولی ِ مسجد کا مسجد
کے مال کو بطورِ قرض دینا جائز نہیں ہے۔ (بحر
الرائق،کتاب الوقف ، جلد5،صفحہ401،مطبوعہ کوئٹہ)
مسجد کا چندہ
بطورِ قرض دینا ناجائز اور دیا تو اس کا تاوان لازم ہونے کے
متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی
دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”فی جامع
الفصولین ليس للمتولي إيداع
مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله،
ولا إقراضه ، فلو أقرض ضمن و كذا المستقرض“
ترجمہ : جامع الفصولین میں ہےکہ متولی کو جائز نہیں کہ
اپنے عیال کے سوا کسی اور کے پاس وقف اور مسجد کے مال کو امانت کے طور
پر رکھے اور نہ اس کا قرض دینا جائز ہے، پس اگر اس (وقف یا مسجد کے
مال کو) کو قرض دے گا ،تو تاوان دے گااور ایسے ہی قرض لینے والا
ہے (کہ اس کے لیے بھی مالِ وقف اور مسجد کے مال سے قرض لینا
جائز نہیں ہے۔) ( العقود الدرية في تنقيح الفتاوی
الحامدیۃ، جلد 1 ، صفحہ 412 ، مطبوعہ کراچی )
سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ متولی کا مال ِوقف بطورِ قرض اپنے صرف میں لانایا
مالِ وقف سے کسی مسلمان کو قرضہ دینا روایا ناروا؟ تو آپ علیہ
الرحمۃ نے جواباً ارشادفرمایا : حرام حرام ، لانہ تعدی علی الوقف والقیم اقیم حافظ لامتلف(کیونکہ یہ
وقف پر زیادتی ہے ، حالانکہ متولی کو بطورِ محافظ مقرر کیا
جاتا ہے نہ کہ ضائع کرنے والا۔اورکسی دوسرے کو قرض دینے کے
متعلق فرمایا) نہ (یعنی جائز
نہیں) لانہ
صرف فی غیر المصرف (کیونکہ یہ
مال وقف کو غیرِ مصرف میں
استعمال کرنا ہے ۔)“ (فتاویٰ رضویہ،
جلد16،صفحہ570،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
متولی
مسجد کا چندہ ذاتی استعمال میں لائے
،تو مسجد کو تاوان ادا کرنا ضروری ہے ، چنانچہ امامِ اہلِ سنّت الشاہ
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:”اس پر توبہ فرض ہے اور تاوان ادا کرنا فرض ہے ، جتنے دام اپنےصَرف(ذاتی استِعمال)میں لایا تھا، اگر یہ اس مسجد کا مُتَوَلّی تھا ، تو اُسی مسجد کے تیل
بتّی میں صَرف کرے دوسری مسجد میں صَرف کردینے سے بھی بَرِیُّ
الذِّمَّہ نہ ہو گا ۔ “ (فتاوٰی رضویہ ،
کتاب الوقف ، جلد 16 ، صفحہ
461 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
چندے کی رقم سے قبرستان کے لیے جگہ خریدنا کیسا؟
مسجد کے فنڈ سے کمیٹی ڈالنا کیسا؟
مسجد کے لیے قرض لینے کے احکام
امام وموذن کو ماہانہ یا سالانہ کتنی چھٹیاں کرنے کی اجازت ہے؟
کیا عین مسجد میں سیڑھی بنائی جاسکتی ہے؟
مدرسے کاچندہ ذاتی استعمال میں لانے کاحکم
جو مسجد چھوٹی پڑچکی ہو کیا اس جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ خرید سکتے ہیں؟
مدرسے کے لئے پلاٹ دینے کے بعد کیا واپس لے سکتے ہیں؟