مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-9101
تاریخ اجراء: 18ربیع الاول 1446ھ/23ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے ایک جگہ کو مدرسہ بنانے کے لیے وقف کیا ،لیکن اس جگہ کی رجسٹری اس کے اپنے نام ہی ہے، صرف زبانی الفاظ کے ساتھ بول کر وقف کیا ہے( یعنی لوگوں کے سامنے کہہ دیا کہ میں نے اس جگہ کو مدرسہ کے لیے وقف کردیا ہے) ،لکھ کر وقف نہیں کیا،اب یہاں مدرسہ بن بھی چکا ہے اور کچھ بچے مدرسے میں پڑھتے بھی ہیں ،لیکن اس جگہ پر مدرسہ چلنا بہت مشکل ہے کہ یہاں آبادی کم ہے، تو اب واقف چاہتا ہے کہ اس جگہ کو بیچ کر ایسی جگہ مدرسہ بنایا جائے جہاں پر آبادی زیادہ ہو ،تو کیا اب واقف اس جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ مدرسہ بنا سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مدرسےکی جگہ کو بیچنا یا دوسری جگہ سے تبدیل کرنا،جائز نہیں ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرعی طور پرکسی جگہ کو لکھ کر ہی وقف کرنا ضروری نہیں،زبان سے وقف کرنے سے بھی جگہ وقف ہوجاتی ہےاور پوچھی گئی صورت میں چونکہ زبانی بول کر اسے وقف کردیا گیا ہے،تو یہ جگہ وقف ہوگئی اور شریعت مطہرہ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی جگہ وقف ہوجائے ،تو یہ بندے کے ملک سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ،اس کے بعد اسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری چیز سے اسے تبدیل کیا جاسکتا ،بلکہ جس مقصد کے لیے اس جگہ کو وقف کیاجا ئے، اسی مقصد میں اسے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔
شرعی طور پروقف ہونے کے لیے رجسٹری ہوناضروری نہیں ،زبانی وقف کرنے ہی سے چیزوقف ہوجاتی ہے،جیسا کہ ردالمحتار میں ہے:” يصير وقفا بمجرد القول“ترجمہ:محض زبانی کہہ دینے سے ہی وقف ہوجائے گا۔ (ردالمحتار، جلد4،صفحہ338،مکتبہ دارالفکر،بیروت)
یونہی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ رحمۃ اللہ الحنان فرماتے ہیں:’’وقف کے لئے کتابت ضروری نہیں زبانی الفاظ کافی ہیں،’’خیریہ‘‘ میں ہے:”امااشتراط کونہ یکتب فی حجۃ ویقیدفی سجلات فلیس بلازم شرعا.... فان اللفظ بانفرادہ کاف فی صحۃذلک شرعاوالزیادۃ لایحتاج الیھا( ملتقطا) ترجمہ :وقف کے لئےموقوفہ شے کاوقف نامہ بنانااوراس کی رجسٹری کرواناشرعاً لازم نہیں، کیونکہ وقف کے صحیح ہونے کے لئے شرعی طورپرصرف لفظی طور پر کہہ دینا کافی ہے اور اس سے زائدکسی چیزکی حاجت نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد16،صفحہ129،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
موقوفہ چیز کو بیچا نہیں جا سکتا، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث مبارک میں ہے :”عن إبن عمر رضی اللہ عنهماقال: أن عمر بن الخطاب أصاب أرضا بخيبر، فأتى النبی صلى اللہ عليه وآلہ وسلم يستأمره فيها، فقال: يا رسول اللہ! إني أصبت أرضا بخيبر لم أصب مالاً قط أنفس عندی منه، فما تأمر به؟ قال: إن شئت حبست أصلها، وتصدقت بهاقال: فتصدق بها عمر، أنه لا يباع ولا يوهب ولا يورث، وتصدق بها فی الفقراء، وفی القربى وفی الرقاب، وفي سبيل اللہ، وابن السبيل، والضيف لا جناح على من وليها أن يأكل منها بالمعروف، ويطعم غير متمول“ ترجمہ : حضرت سیدنا ا بن عمر رضی اللہ عنہما سےمروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خیبر سے کچھ زمین ملی، تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوئےاور انہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! خیبر کی جو زمین میرے حصے میں آئی ہے، ایسا نفیس مال مجھےکبھی نہیں ملا،آپ ارشاد فرمائیے کہ میں اس کا کیا کروں؟تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمر! اگر تم چاہو تو اسے اس طرح وقف کردو کہ وہ زمین تمہاری رہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع مسلمانوں کو حاصل ہو،حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو ان شرائط پر وقف کردیا کہ نہ تو اس زمین کو بیچا جائے گا،نہ ہی ہبہ کیا جائے گا اورنہ ہی اس کا وارث بنایا جائے گا، اس کا نفع فقراء، قرابت دار ،غلاموں کو آزاد کرنے،راہ خدا میں،مسافروں اور مہمانوں پر خرچ کیا جائے اور جو اس زمین کا متولی ہو،تو اس کے لیے جائز ہے کہ بھلائی کے ساتھ اس میں سے کھائے اور اس کوذخیرہ بنائے بغیر دوسروں کو کھلائے ۔ ( صحیح البخاری ،جلد 03،صفحہ 198، مطبوعہ مصر )
مذکورہ حدیثِ پاک کی شرح میں شرح صحیح بخاری لابن بطال،عمدۃ القاری،شرح المشکوٰۃ للطیبی،مرقاۃ المفاتیح ،مراٰۃ المناجیحاورلمعات التنقیح میں ہے:واللفظ للآخر:” وفی الحديث دليل على أن الوقف لا يباع، ولا يوهب، ولا يورث “ ترجمہ: اس حدیث پاک میں اس بات پر دلیل ہے کہ وقف کو نہ بیچا جاسکتا ہے ،نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے ،اور نہ اس میں وراثت جاری ہوتی ہے۔(لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح،جلد05،صفحہ 670، مطبوعہ دار النوادر، دمشق )
وقف مکمل ہوجانے کے بعد واقف نہ تو خود موقوفہ چیز کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے، اس کے متعلق فتاوٰی عالمگیری ،المبسوط للسرخسی ،فتاوٰی قاضی خان،فتح القدیر اور ردالمحتار علی درمختار میں ہے: واللفظ للآخر:” (فإذا تم ولزم لایملک )أی : لایکون مملوکاً لصاحبہ (ولایملک )أی: لایقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ “ترجمہ : جب وقف مکمل اور لازم ہوجائے، تونہ وقف کرنے والا اس کا مالک ہوتا ہے اور نہ اس وقف کا کسی کو مالک بنایا جاسکتا ہے،یعنی وقف ،بیع یا اس کی مثل کسی ذریعے سے دوسرے کو مالک بنانے کوقبول نہیں کرتا ۔( ردالمحتار علی درمختار،جلد06، صفحہ 540،مطبوعہ کوئٹہ )
موقوفہ چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر خاص اللہ پاک کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے متعلق ردالمحتار علی درمختار ،فتح القدیر ،فتاوٰی عالمگیری اور الہدایہ میں ہے:واللفظ للآخر :” فيزول ملك الواقف عنه إلى اللہ تعالى“ترجمہ: پس موقوفہ چیز سے واقف کی ملکیت زائل ہو جائے گی اور (وہ چیز)اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔ (الھدایۃ ، جلد03،صفحہ 15، مطبوعہ دار احياء التراث العربي ، بيروت)
یونہی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ رحمۃ اللہ الحنان لکھتے ہیں:”مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں، تصرف آدمی اپنی ملک میں کر سکتا ہے، وقف مالک حقیقی کی مِلک خاص ہے، اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد16 ،صفحہ 232،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
موقوفہ چیز کو بیچا نہیں جا سکتا ،اس کے متعلق المبسوط للسرخسی ،ردالمحتار علی درمختار ،فتح القدیر ، الہدایہ اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے: واللفظ للآخر:” ولا يباع ولا يوهب ولا يورث “تر جمہ : وقف کو نہ بیچا جاسکتا ہے ،نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ اس میں وراثت جاری ہوتی ہے ۔(فتاوی ھندیہ ، جلد 02 ، صفحہ 350،مطبوعہ دار الفكر، بیروت)
وقف کا حکم بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’ وقف کاحکم یہ ہے کہ نہ خودوقف کرنے والااس کامالک ہے، نہ دوسرے کو اس کامالک بناسکتاہے ،نہ اس کوبیع کرسکتاہے، نہ عاریت دے سکتاہے، نہ اس کورہن رکھ سکتاہے۔“(بھارشریعت،حصہ10، ص533،مطبوعہ مکتبة المدینہ،کراچی)
وقف کواس کے مقصدپرباقی رکھنے کے واجب ہونے کے بارے میں فتح القدیراورردالمحتار میں ہے : ”الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ“ترجمہ:وقف جس حالت پر تھا ،اسی حالت پراس کوباقی رکھنا واجب ہے۔ (فتح القدیر،کتاب الوقف،جلد06،صفحہ212،مطبوعہ کوئٹہ)
وقف کوبدلنے کے ناجائزہونے کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:”لا یجو زتغییر الوقف عن ھیئتہ“ ترجمہ: وقف کو جس چیز کے لیے وقف کیا گیا ہے، اس سے بدلنا جائز نہیں ہے۔ (الفتاوٰى الھندیۃ، جلد02، صفحہ490، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
چندے کی رقم سے قبرستان کے لیے جگہ خریدنا کیسا؟
مسجد کے فنڈ سے کمیٹی ڈالنا کیسا؟
مسجد کے لیے قرض لینے کے احکام
امام وموذن کو ماہانہ یا سالانہ کتنی چھٹیاں کرنے کی اجازت ہے؟
کیا عین مسجد میں سیڑھی بنائی جاسکتی ہے؟
مدرسے کاچندہ ذاتی استعمال میں لانے کاحکم
جو مسجد چھوٹی پڑچکی ہو کیا اس جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ خرید سکتے ہیں؟
مدرسے کے لئے پلاٹ دینے کے بعد کیا واپس لے سکتے ہیں؟