Madrase Ke Chande Se Chhat Par Ustad Ke Liye Rehaish Gah Banana

 

مدرسے کے عمومی چندے سے چھت پر استاذ کے لیے رہائش بنا سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: GRW-1143

تاریخ اجراء: 19 ذو الحجۃ الحرام 1445ھ/26 جون    2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں مدرسہ کی عمارت بنی ہوئی ہے، جہاں طلبہ کرام درس نظامی اور حفظ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ہم  اس مدرسے کے اوپر مدرس کےلیے فیملی رہائش بنانا چاہتے ہیں۔ کیا مدرسہ کے اوپر مدرسہ کے  عمومی چندے سے  مدرس کےلیے فیملی رہائش بنا سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مدرسے کے عمومی چندے سے  مدرسے کے او پر مدرس کےلیے فیملی رہائش بنانا شرعاً جائز ہے۔ اس میں تفصیل یہ ہے کہ مسجد و مدرسہ کی آمدنی  اس کے مصالح پر خرچ ہوتی ہے اور تعمیرمدرسہ کے بعد مدرسہ کے مصالح میں سے سب سے مقدم مدرس ہوتا ہے کہ اس سے مدرسہ کی آباد کاری ہوتی ہے ، جیساکہ مسجد کا امام مصالح مسجد میں مقدم ہوتا ہے۔ لہذا مدرس کی رہائش بنانا مدرس کی ضرورت اور  مدرسہ ہی کی مصلحت ہے، تو جس طرح مسجد کو عین مسجد قرار دینے سے پہلے اس پر عمومی چندے سے امام کےلیے حجرہ بنا سکتے ہیں، اسی طرح مدرسے پر بھی بنا سکتے ہیں۔

   مدرسے کے اوپر مدرس کےلیے رہائش بنائی جا سکتی ہے، کیونکہ وہ مصالح مدرسہ میں سے ہے ،جیساکہ مسجد کے اوپر امام مسجد کےلیے رہائش مصالح مسجد سے ہونے کی وجہ سے (قبل تمامیت مسجد)بنائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ بحر الرائق میں ہے:’’ لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا لأنه من المصالح ‘‘ ترجمہ:مسجد کی چھت پر امام کی رہائش  کے لیے گھر بنایا  ،تو اس سے  اس کی مسجدیت میں کوئی ضرر نہیں آئے گا اس لیے کہ یہ مصالحِ مسجد میں سے ہے۔(بحر الرائق،جلد5،صفحہ271،دارالکتب الاسلامی،بیروت)

   مدرسہ کے عمومی چندے کو مدرسے کی مصلحت پرخرچ کیا جائے گا اور عمارت کے بعد مدرس مدرسے کے مصالح میں سب سے مقدم ہے۔ جیساکہ رد المحتار میں ہے:”قال فی الحاوی القدسی: والذی یبدأ بہ من ارتفاع الوقف : ای من غلتہ عمارتہ شرط الواقف اولا، ثم ما ھواقرب الی العمارۃ و اعم للمصلحۃ  کالامام للمسجد و المدرس للمدرسۃ یصرف الیھم الی قدر کفایتھم ، ثم السراج و البساط کذالک الی آخر المصالح“ترجمہ: حاوی قدسی میں فرمایا: وقف کی آمدن  میں سے جس پر خرچ کی ابتدا کی جائے  گی، وہ اس کی عمارت ہے، واقف نے شرط رکھی ہو یا نہ رکھی ہو۔ پھر جو عمارت سے زیادہ قریب اور مصلحت کےلیے زیادہ عام ہو، جیساکہ مسجد کےلیے امام اور مدرسہ کےلیے مدرس  پر اس کی کفایت کی قدر خرچ کیا جائے گا۔پھر چراغ اور چٹائی اور اس طرح کے دیگر مصالح پر خرچ کیا جائے گا۔          (رد المحتار، ج 6 ، ص 563، مطبوعہ کوئٹہ)

   فقیہ اعظم ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ’’ اہلِ دِہ نے مسجد کی تعمیر کے لئے کچھ رقم جمع کی ہے کیا اس رقم سے اس مسجد کے امام صاحب کا رہائشی مکان بنا سکتے ہیں؟

   نوٹ:(1)کچھ رقم برائے تعمیر مسجد دھڑت کی جمع کی گئی ہے (2)کچھ منتوں والوں نے برائے تعمیر مسجد کو دی ہے(3)یہ احاطہ امام مسجد کا مسجد ایریا سے علیحدہ ہے مگر امام مسجد کا ذاتی نہیں بلکہ گاؤں والوں نے مشترکہ امام مسجد کو دیا ہے ،نیز یہ احاطہ سرکاری ہے۔‘‘

   تو اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:

   ”ہاں اسی مسجد کے امام صاحب کا رہائشی مکان بنا سکتے ہیں،کیونکہ تکمیلِ تعمیر کے بعد ضروریات مسجد میں سے امام اول نمبر میں ہے ،کیونکہ مسجد کی صرف ظاہری تعمیر کا کوئی اعتبار نہیں جب تک کہ اس کی معنوی اور حقیقی تعمیر نہ ہو، حتی کہ مسجد کے لئے روشنی پانی وغیرہ کے وسیع تر انتظام سے امام کی ضروریات مقدم ہیں۔‘‘(فتاوی نوریہ،ج 1،ص 183 ،184،دار العلوم حنفیہ  فریدیہ بصیر پور،اوکاڑہ)

   مدرس کو مدرسہ میں رہائش ملی ہو، تو وہ اس میں اپنی فیملی کو رکھ سکتا ہے(جبکہ  طلباء و غیرہ نامحارم سے پردے کے شرعی تقاضوں کا کما حقہ لحاظ رکھا جائے) جیساکہ  بحر الرائق میں ہے:’’ ولو کانوا ذکورا وإناثا إن کان فیھا حجر ومقاصیر کان للذکور أن یسکنوا نساء ھم معھم وللنساء أن یسکن أزواجھن معھن ‘‘ ترجمہ:اوراگر موقوف علیہم مر د اور عورتیں ہوں، تو اگر اس مکان میں حجرے اور کمرے ہیں، تو مردوں کو اجازت ہے کہ اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ ٹھہرائیں اور عورتوں کو اجازت ہے کہ اپنے شوہروں کو اپنے ساتھ ٹھہرائیں۔ (بحر الرائق ،کتاب الوقف،ج05،ص347،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’اگر مکان موقوف بہت بڑا ہے، جس میں بہت سے کمرے اور حجرے ہیں، تو مردوں کی عورتیں اور عورتوں کے شوہر بھی رہ سکتے ہیں کہ مرد اپنی عورت اور نوکر چا کر کے ساتھ علیحدہ کمرے میں رہے ۔‘(بھار شریعت،ج02،حصہ10،ص554،مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   مفتی محمدخلیل خان قادری برکاتی علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”جبکہ یہ حجرہ مسجدکی چھت پرتعمیرنہیں کیاگیااورنہ اس حجرہ میں آنے جانے کے لیے مسجدکی چھت کوراستہ بناناپڑتاہے،تواس میں امام ومؤذن کابمعہ اہل وعیال رہناجائزہے۔(فتاوی خلیلیہ،ج02،ص542،ضیاء القرآن،مطوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم