Imam Moazin Ki Salary Masjid Ke Chande Se Dena

امام ، موذن کی تنخواہ مسجد کے چندے سے دینا

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7826

تاریخ اجراء: 16شوال المکرم1443ھ/18مئی2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ محلے دار جامع مسجد کو چندہ دیتے ہیں جو مسجد کی تعمیر  ودیگر اخراجات ، مثلا ً بجلی ، گیس کے بل وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں ، کیا امام مسجد ، مؤذن صاحب کو وظیفہ بھی اسی مسجد کے چندے سے ادا کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مسجد کا چندہ مسجد میں کیے جانے والے عُمومی اخراجات ، مثلاً تعمیرات ، امام و مؤذن ، خادمین کے وظائف اور صفائی ستھرائی میں ہونے والے اخراجات وغیرہ   کے لیے دیا جاتا ہے ، لہٰذا مسجد کے چندے کی رقم سے خطیب ، امام صاحب اور  مؤذن  وغیرہ کو وظیفہ (Salary) دیناجائز ہے ، جبکہ تنخواہ اتنی ہو ، جو عام طور پر  بنتی ہے ، لیکن اگر متولی نے  عُرف سے ہٹ کر بہت زیادہ  تنخواہ مقرر کر دی  ، تو مسجد کی رقم سے اس کا تنخواہ دینا جائز نہیں اور اگر امام کو  معلوم ہے کہ عُرف سے ہٹ کر اتنی زیادہ  تنخواہ  مسجدکی رقم سے دی جارہی ہے ، تو اس کا لینا بھی جائز نہیں ۔

     نوٹ :  اوپر مسئلے میں آخری بات حکمِ شرعی واضح کرنے کےلیے لکھی گئی  ہے ، ورنہ ہمارے معاشرے  کا حال اس سے  بہت  زیادہ  مختلف ہے ، امام  صاحب کو زیادہ تنخواہ دینا   تو درکنار  اتنی تنخواہ بھی نہیں دی جاتی  جو اس کی ضروریات کو کافی ہو اورجو دی جاتی ہے وہ بھی پورے وقت پہ  ادا کرنے کا ذہن نہیں ہوتا ، اس لیے ہمیں چاہیے  کہ اپنے ائمہ کرام کی اتنی تنخواہ مقرر کریں ، جس سے متوسط درجے  کی زندگی گزاری جا سکتی ہو اور اگر مسجد انتظامیہ  کی طرف سے اتنی تنخواہ مقرر نہ ہو ، تو مخیر حضرات کو چاہیے کہ سعادت سمجھ کر خدمت کیا کریں ۔

     امام کمالُ الدین  ابنِ ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) لکھتےہیں: وللمتولي أن يستأجر من يخدم ‌المسجد بكنسه ونحو ذلك بأجرة مثله أو زيادة يتغابن فيها، فإن كان أكثر فالاجارة ‌له وعليه الدفع من مال نفسه، ويضمن ‌لو ‌دفع ‌من ‌مال ‌الوقف، وإن علم الأجير أن ما أخذه من مال الوقف لا يحل ‌له ترجمہ : اور متولی ، مسجد کی  خدمت  ، مثلاً صفائی اور دیگر کاموں ، امامت ، مؤذنی وغیرہ  کےلیےکسی شخص کو  اُجرتِ مثل  یا غبنِ فاحش کی زیادتی کے ساتھ اجیر رکھ   سکتا ہے ، لیکن زیادتی کی صورت میں اجرت دینا اس کے ذمہ پر ہو گی (مسجد کے چندے سے نہیں دے سکتا ) اور اگر مالِ وقف سے دے  دی ، تو تاوان دینا ہو گااور اگراجیر کو بھی معلوم ہو کہ مالِ وقف سے اجارہ مل رہا ہے، تو اس کا لینا  بھی جائز نہیں ۔(فتح القدير   ، کتاب الوقف ، الفصل الاول فی المتولی ، جلد 6  ، صفحہ   223 ، مطبوعہ  کوئٹہ )

     تنویر الابصار و درمختار میں ہے : (ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كامام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ترجمہ : اور وقف کی آمدن سب سے پہلے اس کی  عمارت  پر لگائی جائے گی ، عمارت کے بعد آمدنی اس چیز پر صَرف کی جائے گی  جو عمارت سے قریب تر(اور با عتبار ِمصالح مفید تر ہو کہ یہ معنوی عمارت ہے)  جیسے مسجدکے ليے امام اور مدرسہ کے ليے مدرس ( کہ ان سے  مسجد و مدرسہ کی آباد کاری ہے )،  اِن کو بقدر کفایت وقف کی آمدنی سے دیا جائےگا ۔(تنویر الابصار و درمختار ، کتاب الوقف  ،جلد 6، صفحہ 562، مطبوعہ کوئٹہ )

     مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں: امام کی تنخواہ اگر اتنی ہے کہ جو واجبی طور پر ہونی چاہیے ، تو مسجد کی رقم سے تنخواہ دیناجائز ہے اور اگر متولی نے اتنی زیادہ تنخواہ مقرر  کر دی کہ دوسرے لوگ اتنی نہ دیتے  ، تو مسجد کی رقم سے اس تنخواہ کا دینا جائز نہیں ، متولی اپنی طرف سے  دے ۔ اگر مسجد کی رقم سے دے گا ، تو تاوان دینا پڑے گا ، بلکہ اگر امام کو معلوم ہے کہ مسجد کی رقم سے یہ تنخواہ دیتاہے ، تواسے لینا بھی جائز نہیں ۔ “(فتاوی فیض الرسول ، جلد 2 ، صفحہ 374 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور  )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم