Eidgah Mein Shadi Biyah Ki Taqreeb Karna Kaisa?

 

عید گاہ میں شادی بیاہ کی تقریب منعقد کرنا

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3335

تاریخ اجراء: 02جمادی الاخریٰ 1446ھ/05دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا عید گاہ میں شادی بیاہ  کی تقریب منعقدکر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عید گاہ کی جگہ اگر عید وغیرہ کے لیے وقف ہو ، تو وہاں وقف والے کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام ، یونہی شادی بیاہ کی تقریبات بھی نہیں کر سکتے ، کیونکہ جب کوئی شخص کسی چیز کو وقف کر دیتا ہے ، تو وقف ہو جانے کے بعد وہ چیز اس کی ملکیت سے نکل کر خالصتاً اللہ پاک کی ملکیت میں چلی جاتی ہے ،اب اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا یا اسے جس مَصرَف (جس کام) کے لیے وقف کیا گیا تھا ، اس کے علاوہ کسی اور کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا ، کیونکہ تغییرِ وقف یعنی وقف کو بدل دینا یا اسے خلافِ مصرَف یعنی کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا ، ناجائز و حرام ہے۔

   اور اگر عید گاہ وقف نہ ہو ، بلکہ ویسے ہی ایک میدان، شہر یا گاؤں کی ضروریات کا ہو ، جسے کسی خاص کام کے لیے وقف نہ کیا گیا ہو اور وہاں لوگ عید بھی پڑھتے ہوں اور باقی کام بھی کرتے ہوں ، تو وہاں شادی بیاہ کی جائز تقریبات کر سکتے ہیں ، جبکہ ناجائز تقریبات کی کسی بھی جگہ اجازت نہیں ہے ۔

   امامِ اہلِسنت سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’قلت : فاذا لم یجز تبدیل الھیأۃ فکیف بتغییر اصل المقصود ‘‘ ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ جب وقف کی صورت میں تبدیلی جائز نہیں ہے ، تو اصلِ مقصود میں تبدیلی (یعنی وقف کو کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا) کیسے جائز ہو سکتی ہے ۔“(فتاوی رضویہ، ج9،ص457، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”جو چیز جس غرض کے لیے وقف کی گئی، دوسری غرض کی طرف اُسے پھیرنا ، ناجائز ہے ۔ اگرچہ وہ غرض بھی وقف ہی کے فائدہ کی ہو کہ شرطِ واقف مثلِ نصِ شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واجب الاتباع ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ، ج16 ، ص452 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں : ”دینے والے جس مقصد کے لئے چندہ دیں یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائداد  وقف کرے،اوسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جا سکتی ہے،دوسرے میں صَرف کرنا ، جائز نہیں۔(فتاوی امجدیہ،ج3،ص42، مکتبہ رضویہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم