Apne Ghar Ki Battery Masjid Ki Bijli Se Charge Karne Ka Hukum

 

اپنے گھر کی بیٹری مسجد کی بجلی سے چارج کرنا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3049

تاریخ اجراء: 04ربیع الاول1446 ھ/09ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    ایک شخص روزانہ صبح کے وقت یا کبھی شام کے وقت  مسجد میں آکر اپنے گھر کی بڑی بیٹری چارج کر کے جاتا ہے ،جبکہ  اس کے محلے میں بیٹریاں چارج کرنے والی دکان بھی موجود ہے،مگر اس کے باوجود بھی  وہ شخص اپنے پیسے بچانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ایسے شخص کے متعلق کیا حکم شرعی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسجد  کی بجلی  مسجد کی ضروریات اور مصالح کےلیے  ہوتی ہے ،اُسے صرف مسجد ہی کے کاموں اور ضروریات میں استعمال کیا جاسکتا ہے،لہذا سوال میں مذکور شخص  کا   مسجد کی بجلی سے اپنے گھر کی بیٹری چارج کرنا،مسجد کی بجلی کو خلافِ مَصرف میں استعمال کرنا ہے،جو کہ    شرعاً  ناجائز  و گناہ ہے ۔ مسجد کی کمیٹی پر لازم ہے کہ وہ  اُس شخص کو مسجد کی بجلی استعمال کرنے سے روکیں،اگر قدرت کے باوجود مسجد کی  کمیٹی والے  یا  علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے  افراد اس شخص کو اس کام سے باز نہ رکھیں گے ،تو  وہ سب بھی  گنہگار ہوں گے۔نیز شخصِ مذکور پر بھی لازم ہے کہ  فوراً اس کام سے باز آکر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں   سچی توبہ کرے  ،اور توبہ کے ساتھ اس کا تاوان بھی ادا کرے،یعنی  اب  تک    مسجد کی جو بجلی استعمال کی ،اس کی  جتنی رقم بنتی ہو (اندازاً    زیادہ سے زیادہ رقم   کا حساب  لگاکر)اپنی جیب سے وہ رقم   مسجد میں  بطورِ تاوان  ادا  کرے۔

   مسجد کی بجلی کو  کسی شخص بلکہ متولی کیلئے بھی  اپنے  ذاتی  استعمال میں لانا جائز نہیں، چنانچہ مسجد کے چراغ سے متعلق فتاوی ہندیہ  میں ہے :’ ’ متولی  المسجد لیس لہ ان یحمل سراج المسجد الی بیتہ‘‘ ترجمہ:مسجد کے متولی کیلئے (بھی)یہ جائز نہیں کہ وہ  مسجد کا چراغ  اپنے گھر لے جائے ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الوقف،ج  2، ص 462،دار الفکر، بیروت)

   فتاوی نوریہ  میں مفتی محمد  نوراللہ  نعیمی بصیر پوری رحمۃ اللہ علیہ سے  سوال ہوا کہ جو چیز مسجد کیلئے وقف ہو اور مسجد میں استعمال کی جاتی ہو ۔۔۔وہ اور کسی  جگہ میں  استعمال کرنی جائز ہے یا نہیں؟یا امام مسجد اپنے گھر میں  کوئی چیز مسجد سے لے جاکر  استعمال کرسکتا ہے؟

   توآپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا کہ ’’ آباد مسجد کیلئے وقف شدہ شے  چراغ،پنکھا وغیرہ جو مسجد میں استعمال کی جاتی ہو وہ اور کسی جگہ بھی استعمال کرنی جائز نہیں،قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد مبین ہے:ان المساجد للہ کہ مسجدیں اللہ تعالی کی ہیں تو بلا اجازت شرعیہ کوئی شخص بھی مسجد کی کسی چیز کو کسی جگہ استعمال نہیں کرسکتا، فقہائے کرام نے بطور تمثیل تصریح فرمادی ہے کہ کوئی شخص مسجد کا چراغ اپنے گھر نہیں لے جاسکتا۔۔۔بلکہ یہاں تک بھی تصریح فرمادی ہے کہ متولی مسجد کو بھی یہ حق حاصل نہیں۔۔۔اور دوسری اشیاء کا بھی یہی حکم ہے کہ چراغ  کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔“ (فتاوی نوریہ،ج 1،ص 150،151،دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور)

   وقار الفتاوی میں مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’مسجد کی بجلی یا کسی اور چیز کا استعمال مسجد کی ضرورتوں کے علاوہ کسی شخص کیلئے بھی  جائز نہیں ہے۔“ (وقار الفتاوی،ج 2،ص 334،بزم وقار الدین،کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  بہارشریعت میں فرماتے ہیں : ”مسجد کی اشیا مثلاً لوٹا ، چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے ۔ مثلاً لوٹے میں پانی بھر کر اپنے گھر نہیں لے جاسکتے اگرچہ یہ ارادہ ہو کہ پھر واپس کر جاؤں گا۔ اُس کی چٹائی اپنے گھر یا کسی دوسری جگہ بچھانا نا جائز ہے۔ یوہیں مسجد کے ڈول ، رسی سے اپنے گھر کے ليے پانی بھر نا یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا، نا جائز ہے۔“ (بہارشریعت،ج 2،حصہ10،ص 561،562،مکتبۃ المدینہ )

   مسجد کی بجلی بے جا مصرف میں استعمال کرنے پر تاوان لازم آئے گا،چنانچہ  سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’جو متولی ان (بے جا مصرفوں)میں صرف کرے گا اسی قدر کا تاوان اس پر لازم ہوگا۔ ‘‘(فتاوی رضویہ،ج 16،ص 155،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم