مدرسہ کے بچّوں کا وقف کے قرآنِ پاک پر لکھنا

مجیب: مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر/نومبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مدرسہ میں دیئے گئے وقف کے قرآنِ پاک جب حفظ و ناظرہ کے لئے بچوں کو پڑھنے کے لئے دیئے جاتے ہیں تو بچے پہچان کے لئے قرآنِ پاک پر نام لکھ لیتے ہیں اور اغلاط یاد رکھنے کے لئے نشان بھی لگا لیتے ہیں تو وقف کے قرآنِ پاک میں ذاتی تصرف جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مدرسہ میں دیئے گئے وقف کے قرآنِ پاک پر نام نہ لکھا جائے، انتظامیہ کو چاہئے کہ وقف کے قرآنِ پاک کے تحفظ کیلئے اس پر خاص نمبر لکھ دے جس کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کر لے تاکہ اسے بچوں کو دیتے وقت واضح طور پر معلوم ہو کہ کون سا قرآنِ پاک کس بچے کے حوالے کیا گیا ہے اور یوں بچوں کے استعمال شدہ کے درمیان فرق رہے اور وہ ایک دوسرے کا بھی استعمال نہ کریں اور وقف کی حفاظت بھی ہو۔ غلطیاں یاد رکھنے کے لئے نشان لگانا وقف میں ذاتی تصرف ہے جو کہ ناجائز ہے۔

    البتہ اگر کسی کا ذاتی قرآنِ پاک ہے تو اُس پر نام بھی لکھ سکتے  ہیں اور غلطیاں یاد رکھنے کے لئے نشان لگانا بھی جائز ہے لیکن اس میں بھی یہ خیال رکھا جائے کہ بڑے بڑے نشان نہ لگائے جائیں بلکہ حروف اور حرکات کے علاوہ خالی جگہ پر ایسی پینسل سے چھوٹا سا نشان لگانا چاہئے کہ جس کے نشان کو مٹایا جاسکتا ہو تاکہ بعد میں ان نشانات کو ختم کیا جا سکے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم