مسجد کی پُرانی دریوں کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟

مجیب:  مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:    ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ہماری مسجد میں کچھ دن قبل ایک شخصیت نے نئی دریاں لا کر دیں تو پُرانی دریاں اُٹھا کر مسجد کے اسٹور میں رکھ دی گئیں ، وہ دریاں مسجد کی حاجت سے زائدہیں اور آئندہ بھی کسی جگہ استعمال کے قابل نہیں کیونکہ وہ کافی جگہوں سے پھٹ چکی ہیں، اور پڑے رہنے سے مزید خراب ہونے کااندیشہ ہے، ایک شخص وہ دریاں خریدنا چاہتا ہے، براہِ کرم شَرْعی راہنمائی فرمائیں کہ ان دریوں کو بیچنا اور اُس شخص کا انہیں خریدنا شرعاً کیسا؟ یاد رہے! یہ دریاں مسجِد کے پیسوں سے خریدی گئی تھیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

          دریافت کی گئی صورت میں مذکورہ دریوں کو مسجد کے لئے مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کرنا،اور کسی دوسرے کاانہیں خریدنا شَرْعاً جائز ہے، لیکن خریدنے والے کو چاہئے کہ وہ انہیں بے ادبی کی جگہ استعمال کرنے سے بچے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ مسجد کے پیسو ں سے خریدا گیا وہ سامان جو فی الحال مسجد کی حاجت سے زائد ہو اور آئندہ بھی مسجد کے استعمال میں نہ آ سکے یا استعمال میں تو آ سکے لیکن وقت ِ ضرورت تک پڑے رہنے سے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کرنا جائز ہے، جب فروخت کرنا جائز ہے تودوسروں کا اسے خریدنا بھی جائز ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم