قبرستان میں لگے ہوئےدرخت کس کی ملکیت ہوتےہیں؟نیز ان کو بیچنےکاحکم

مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar:7127

تاریخ اجراء:08ربیع الثانی1442ھ/24نومبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان  شرع متین  اس مسئلے کے بارےمیں کہ قبرستان میں درخت لگے ہوتے ہیں ،وہ کس کے ہیں؟کیا انہیں فروخت کرکے ان کی قیمت قبرستان میں لگا سکتے ہیں یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       وقف شدہ قبرستان میں لگے درخت دو طرح کے ہوتے ہیں:(1)جو کسی شخص کے لگائے بغیرخودبخود اُ گ گئے  ہوں(2)جو کسی شخص نے لگائے ہوں۔پہلی صورت میں وہ درخت قبرستان کے ہیں،جبکہ دوسری صورت میں لگانے والامعلوم نہ ہو،توبھی وہ درخت قبرستان کے ہیں اوراگرمعلوم ہواوراس نے اپنے مال سے اپنے لیے لگائے، تواس کی ملکیت پرباقی رہیں گے،ہاں اگران درختوں کی وجہ سے قبرستان کی زمین تنگ ہورہی ہو،توانہیں کاٹ کرزمین خالی کرنے پرمجبورکیاجائے گااوراگرلگانے والے نے اپنے پیسوں سے لگائے،مگرقبرستان کے لیے وقف کردیئے یاقبرستان کے پیسوں سےلگا ئے،تووہ قبرستان کے نام وقف ہوجائیں گےاور قاضی کی اجازت سے فروخت کرکے ان کی قیمت قبرستان پر لگا سکتے ہیں ۔ اگرقاضی نہ ہوتوشہرکے سب سے بڑے عالم کی اجازت سے ،اگروہ بھی نہ ہوتوعلاقے کے مسلمانوں کافیصلہ قاضی کے قائم مقام ہوگا۔

       وقف شدہ زمین میں درخت خودبخود اُگے ہوں یالگانے والامعلوم نہ ہوتودرخت وقف ہونے کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ان کانت الاشجار نبتت بعد اتخاذ الارض مقبرۃ…..المسئلۃ علی قسمین اما أن علم لھاغارس او لم یعلم ففی القسم الاول کانت للغارس وفی القسم الثانی الحکم فی ذلک الی القاضی ان رأی بیعھا وصرف ثمنھا الی عمارۃ المقبرۃ‘‘  ترجمہ:اگر زمین کوقبرستان کے لیے وقف کرنے کے بعد اس میں درخت اُگے تھے،تو اس کی دوصورتیں ہیں: اگردرخت لگانے والے کا پتہ ہے ،تودرخت اس کی ملک میں رہیں گے اور اگر یہ معلوم نہیں کہ درخت کس نے لگائے ،تو اس میں حکم یہ ہے کہ قاضی انہیں فروخت کرکے اس کی قیمت قبرستان کی عمارت میں لگائے۔

(ملخصاً فتاوی عالمگیری، جلد2، صفحہ473، مطبوعہ کوئٹہ)

       بہارشریعت میں ہے:’’اور درخت خودرو(اپنے آپ اُگے ہوئے)ہیں یامعلوم نہیں کس نے لگائے،توقبرستان کے قرار پائیں گے،یعنی قاضی کے حکم سے بیچ کراسی قبرستان کی درستی میں صرف کیا جائے۔‘‘

(بھارشریعت، جلد2، صفحہ566، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

       اپنے مال یاوقف کی آمدنی سے درخت لگانے کے بارے میں فتاوی خانیہ میں ہے:’’رجل وقف ضیعۃ علی جھۃ معلومۃ اوعلی قوم معلومین ثم ان الواقف غرس فیھا شجرا قالواان غرس من غلۃ الوقف اومن مال نفسہ لکن ذکر انہ غرس للوقف یکون للوقف وان لم یذکر شیأوقد غرس من مال نفسہ یکون لہ ولورثتہ من بعدہ ولایکون وقفا‘‘ترجمہ:ایک شخص نے متعین کام یامتعین لوگوں کے لیےزمین  وقف کی ،پھر واقف نے اس میں درخت لگائے ،علمائے کرام نے فرمایا: اگر وقف کی آمدنی سے لگائے یااپنے مال سے لگائے مگر یہ ذکر کردیا کہ یہ وقف کے لیےہیں ، تووہ درخت وقف کے لیے ہوں گے اور اگر اس نے کچھ بھی ذکر نہیں کیا اور اپنے مال سے درخت لگائے، تو اس کا مالک یہ خود ہی ہوگااور اس کے بعد اس کے وارث مالک ہوں گے اور وہ درخت وقف نہیں ہوں گے۔

(فتاوی خانیہ مع ھندیہ،جلد3،صفحہ310 ،مطبوعہ کوئٹہ)

       بہارشریعت میں ہے:’’زمین موقوفہ میں کسی نے درخت لگائے ،اگر یہ شخص اس زمین کی نگرانی کے لیے مقرر ہے یاواقف نے درخت لگایا اور وقف کا مال اس پر صرف کیایااپناہی مال صرف کیا،مگر کہہ دیا کہ وقف کے لیے یہ درخت لگایا ،توان صورتوں میں وقف کا ہے ،ورنہ لگانے والے کا۔‘‘

(بھارشریعت، جلد2، صفحہ567،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

       اہل علاقہ کی اجازت سے فروخت کرنے کے بارے میں فتاوی فیض الرسول میں ہے:’’قبرستان کے خود رو درخت کوقاضی کے حکم سے کاٹ کرقبرستان کی مرمت میں لگاسکتے ہیں،جہاں قاضی شرع نہ ہو،تواس ضلع کاسب سے بڑاسنی صحیح العقیدہ عالم جومرجع فتوی ہو،اس کے قائم مقام ہے اوراگرضلع میں ایساعالم بھی نہ ہو،توعام مسلمانوں کافیصلہ حکم قاضی کے قائم مقام ہے۔‘‘

(فتاوی فیض الرسول،جلد01،صفحہ472،مطبوعہ شبیربرادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم