مجیب:مولاناانس رضاصاحب زید مجدہ
مصدق:مفتی
ھاشم صاحب مدظلہ العالی
فتوی نمبر:lar-6750
تاریخ اجراء:01ذوالحجۃالحرام1438ھ/24اگست2017ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام
اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل طلاق دینے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
چھوٹی چھوٹی سی بات پر لوگ زبانی،تحریری یا فون پر اکٹھی تین طلاقیں دے دیتے ہیں
اور بعد میں بہت پریشان
ہوتے ہیں اور دوبارہ صلح
کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں
ارشاد فرمائیں کہ شوہر نے اگر صریح الفاظ میں تین
طلاقیں دے دی ہوں ، تو کیا وہ تینوں
نافذ ہوجاتی ہیں یا نہیں؟ رجوع
کی کوئی صورت ہے یا نہیں ؟اگر تین
طلاقوں کے بعد بغیر حلالہ کے رجوع ممکن نہیں ، تو حلالہ
کا طریقہ ارشاد فرمادیں۔نیزتین
طلاقیں ہوجانے کے باوجودلڑکا لڑکی اکٹھے رہیں ، تو ان کا یوں
رہنا کیسا ہے؟گھر والوں ،رشتہ داروں ،دوست احباب،اہل محلہ کو کیا کرنا چاہیے
؟
بعض لوگوں نے طلاق جیسے اہم شرعی مسئلہ میں کچھ باتیں
گھڑی ہوئی ہوتی ہیں، جو درج ذیل
ہیں:
(1)غصہ میں طلاق نہیں ہوتی ۔(2)عورت جب تک نہ سنے
، طلاق نہیں ہوتی ۔ (3)عورت قبول نہ کرے ، تو طلاق نہیں ہوتی
۔ (4)طلاق دیتے وقت گواہ
نہ ہوں ، تو طلاق نہیں ہوتی۔
(5) جب تک لکھ کر نہ دو ، طلاق نہیں ہوتی ۔ (6)بعض کہتے ہیں
کہ ساٹھ بندوں کو
قرآن
وحدیث کی روشنی
میں ان باتوں کا مختصر جواب تحریر
فرمادیں تاکہ مسلمان شرعی حکم پر عمل پیرا ہوسکیں۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی
طور پر جب تین طلاقیں ہوجائیں اگرچہ یہ طلاقیں لڑائی
کے سبب ہوں یا بلاوجہ یا فون پر دی جائیں یا زبانی
یا تحریری ، بہر صورت عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے اور بغیر
حلالہ کے رجوع کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔
اللہ
سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿فَاِنْ
طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ
زَوْجًا غَیْرَهٗ﴾ترجمہ
کنزالایمان :پھر اگر تیسری طلاق اسے دی ، تو اب وہ عورت
اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔(پارہ
2 ، سورۃالبقرہ، آیت 230)
حلالہ شرعیہ کی
صورت یہ ہے کہ طلاق کی عدت پوری ہوجانے کے بعدوہ عورت کسی
اورسے نکاح ِصحیح کرے اوردوسرےشوہرسے بعد از صحبت طلاق ہوجائےیا
دوسرا شوہرفوت ہوجائے ، تو عورت عدت گزار کر پہلے شوہرسے نکاح کرسکتی ہے۔قرآن
پاک میں ہے :﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ
مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ؕ-فَاِنْ
طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَا﴾ترجمۂ کنزالایمان
:پھر اگر تیسری طلاق اسے دی ، تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی
، جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے ، تو ان
دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں۔(پارہ 2 ، سورۃالبقرہ، آیت 230)
اگر میاں بیوی
تین طلاقوں کے باوجود بغیر حلالہ کے رجوع کریں ، تو سخت گناہ گا
روزانی ہوں گے۔گھر والوں،رشتہ داروں اور اہل محلہ پر لازم ہے کہ وہ
حسبِ استطاعت ان کو اکٹھے رہنے سے روکیں ۔ اگر یہ دونوں
باز نہ آئیں ، تو ان سے قطع تعلقی کرنا چاہیے۔مفتی
محمدوقا را لدین قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”جس شخص نے مطلقہ ثلاثہ کو
اپنے پاس رکھا ہے ، وہ حرام کاری میں مبتلا ہوا ۔ اہل محلہ اور
رشتہ داروں کو اس سے ملنا جلنا ناجائز و گناہ تھا ، جب تک و ہ اس عورت کو اپنے سے
جدا نہ کردے اور بالاعلان توبہ نہ کرے۔“(وقار الفتاوٰی،جلد3،صفحہ165،بزم وقارالدین،مطبوعہ کراچی)
طلاق کے حوالے سے جو سائل
نے لوگوں کی باتیں لکھی ہیں ، واقعی یہ عموما
سننے کو ملتی ہیں ، جو کہ بالکل غلط اور خودساختہ ہیں۔مذکورہ
صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو دلیل بنانا ، ناجائز اور
لوگوں کاطلاق جیسے اہم مسئلہ میں اس میاں بیوی کو یہ
باتیں بتلا کر رجوع کی ترغیب دینا حرام ہے۔جس
شخص کو طلاق کے مسائل کا شرعی علم نہیں ،اس کے لیے جائز نہیں
کہ وہ طلاق کے مسئلہ میں اپنی رائے دے ، کیونکہ بغیر علم
کے فتوی دیناحرام ہے۔حدیث پاک میں ہے”من افتی بغیر
علم لعنتہ ملٰئکۃ السماء والارض ۔رواہ ابن عساکر عن امیر
المؤمنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ“یعنی جو بغیر
علم کے فتوی دے ، اس پر آسمان وزمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔
اسے ابن عساکر نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت کیاہے ۔(کنز العمال ،جلد 10،صفحہ 193،حدیث 29018،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)
مختصراً ان صورتوں کا
جواب دیا جاتا ہے ، جو لوگوں نے گھڑ لی ہیں:
(1)غصہ میں طلاق :غصہ میں طلاق ہوجاتی
ہے ، بلکہ اکثرطلاق ہوتی ہی غصہ میں ہے ۔ کوئی پیارسے
طلاق نہیں دیتا۔امام اہل سنت اعلی حضرت الشاہ امام
احمدرضاخان علیہ رحمۃ اللہ الحنان فرماتے ہیں: ” غصّہ مانعِ وقوعِ طلاق نہیں، بلکہ اکثر وہی
طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راساً
ابطال ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد12،صفحہ383،رضافاؤنڈٰیشن،لاھور)
(2)عورت کا طلاق سننا: جب شوہر طلاق دے ،
اسی وقت طلاق ہوجاتی ہے ، عورت کا سننا ضروری نہیں۔
فتاوی رضویہ میں ہے:”طلاق کے لیے زوجہ
خواہ کسی دوسرے کا سننا ضرورنہیں، جبکہ شوہر نے اپنی زبان
سے الفاظِ طلاق ایسی آواز سے کہے ، جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل
تھے (اگر چہ کسی غل شور یا ثقل سماعت کے سبب نہ پہنچے ) عنداللہ طلاق
ہو گئی ۔عورت کوخبر ہو ، تو وہ بھی اپنے آپ کو مطلّقہ جانے ۔“(فتاوی رضویہ،جلد12،صفحہ 362، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
(3)عورت کا طلاق قبول کرنا:شوہر کے طلاق دیتے
ہی طلاق ہوجاتی ہے،عورت کا طلاق قبول کرنا ، شرط نہیں ۔امام
احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”اگر واقع میں اس
شخص نے یہ خط آپ کو لکھا یا دوسرے کو عبارت مذکورہ بتاکر لکھوایا
کہ میری عورت کی نسبت یہ الفاظ لکھ دے ، تو جس وقت اس کے
قلم یازبان سے یہ لفظ نکلے ، اسی وقت سے عورت پر ایک طلاق
پڑگئی اور اسی وقت سے عدّت کا شمار ہوگا اگرچہ یہ خط بڑودہ (
سوال میں مذکور جگہ کا نام ) نہ پہنچتا یا وہ خود ہی لکھ کر نہ
بھیجتا یا مکتوب الہیم ( جن کی طرف خط لکھا گیا )
عورت کو نہ سُناتے کہ جو الفاظِ طلاق لکھے یا بتائے جب ان میں
کوئی شرط نہیں کہ یہ خط جب پہنچے یا سنایاجائے ، اس
وقت طلاق ہو، تو ان کا لکھنا یا بتانا ہی طلاق کا موجب ہوگیا
۔ بھیجنے ، پہنچنے ، سنانے پر توقف نہ رہا۔“(فتاوٰی رضویہ،جلد12،صفحہ447،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
(4)طلاق دیتے وقت گواہوں کا
ہونا:طلاق میں گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ۔فتاوی
رضویہ میں ہے :”شوہرِ
اول طلاق دینے کامقر (اقرارکرتا) ہے ، مگرعذرصرف یہ کرتاہے کہ طلاق خفیہ
دی ، چاراشخاص کے سامنے نہ دی،لہٰذااپنی جہالت سے طلاق نہ
ہوناسمجھتاہے،اگرایساہے ، تواس کادعو ٰی غلط باطل ہے،طلاق بالکل
تنہائی میں دے ، جب بھی ہوجاتی ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد12،صفحہ366،رضافاؤنڈیشن، لاھور )
(5)بغیرتحریر کے فقط زبان سے طلاق دینا:شرعی طور پر طلاق
زبان سے دی جائے یا تحریری ، دونوں صورتوں میں طلاق
ہوجاتی ہے۔ مفتی اعظم ہند حضرت مصطفی رضا خان علیہ
رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”جب تین بار اس نے
زبانی طلاق دے دی اور اس کا اسے اقرار ہے کہ اس نے اپنی بیوی
کو تین طلاقیں دیں ،صرف یہ شبہ ہے کہ بلاتحریر دی
ہے ، لہٰذا نہ ہوئیں ،تو عورت پر تینوں طلاقیں ہوجانے کا
حکم ہے۔ عورت اب اس پر ہمیشہ ہمیشہ کو حرام ہوگئی کہ بے
حلالہ اب کبھی اس پر حلال نہیں ہوسکتی ۔یہ بے ہودہ
عذر عدمِ تحریر محض باطل ، بالکل ناکارہ اور مردود ہے۔ طلاق
ہوجانے کے لیے تحریر ہرگز لازم نہیں ۔“(فتاوٰی مصطفویہ،صفحہ366،شبیر برادرز،لاھور)
(6)ساٹھ بندوں کو
(7) نوے دن کے اندر صلح :ایک یا دو صریح
طلاق دی ہو ، تو عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے ،لیکن تین طلاقوں
کے بعد قرآن کا واضح حکم ہے کہ بغیر حلالہ رجوع نہیں۔نوے دن کے
اندر صلح کو کہنا عورت کو کھیل بنانا ہے کہ شوہر جب چاہے طلاقیں دے
اور پھر نوے دن کے اندر رجوع کرلے ۔زمانہ جاہلیت میں یہی
ظلم تو عورتوں پر ہوتا تھا کہ کئی طلاقیں دینے کے بعد عدت
کے اندررجوع کرلیتے تھے۔اللہ عزوجل نے اس ظلم کو ختم کرتے ہوئے فقط دو
طلاقوں تک رجوع کی اجازت دی ۔ تفسیر ابن کثیر
میں ہے : ”عن عائشۃ قالت لم یکن
للطلاق وقت، یطلقُ الرجل امرأتہ ثم یراجعھا ما لم تنقض العدۃ
وکان بین رَجل من الأنصار وبین أھلہ بعضُ ما یکون بین
الناس فقال واللہ لأترکنک لا أیِّمًا ولا ذات زوج، فجعل یطلقھا حتی
اذا کادت العدۃ أن تنقضی راجعھا، ففعل ذلک مرارًا، فأنزل اللہ عز وجل
فیہ﴿الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ
بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾فوقَّتَ الطلاق
ثلاثًا لا رجعۃ فیہ بعد الثالثۃ حتی تنکح زوجًا غیرہ“ ترجمہ:حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے طلاق کا کوئی
وقت نہ تھا ۔شوہر بیوی کو طلاق دیتا ، پھر عدت پوری
ہونے سے قبل رجوع کر لیتا۔ انصار میں سےایک میاں بیوی
کی باہم ناچاقی ہوئی ، تو شوہر نے بیوی سے
کہا : اللہ کی قسم میں تجھےنہ بیوی اور نہ طلاق یافتہ
رہنے دوں گا۔وہ اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور عدت پوری
ہونے سے قبل رجوع کر لیتا ۔ اس نے ایسا باربار کیا ، تو
اللہ عزوجل نے یہ حکم نازل فرمایا:یہ طلاق دو بار تک ہے ، پھر
بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا اچھے سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا
ہے، توتین طلاقوں تک حد قائم کردی گئی کہ تین طلاقوں کے
بعد رجوع نہیں ۔ یہاں تک کہ بیوی دوسرے سے نکاح و
صحبت نہ کرے۔(یعنی حلالہ نہ کرلے)(تفسیر ابن کثیر،جلد1،صفحہ546،مطبوعہ پشاور)
(8)یونین کونسل والوں کا طلاق نافذ کرنا:یونین کونسل
والوں کا کہنا کہ”جب تک ہم طلاق نافذ نہ کریں
گے ، طلاق نہیں ہوگی “یہ جہالت اور شریعت
پر افتراء ہے،قرآن وحدیث میں تو ایسا کچھ نہیں فرمایا
گیا ۔ یونین کونسل والے اب چند سالوں میں وجود میں
آئے ہیں ، ان سے صدیوں پہلے تک جو زبانی نکاح و طلاق ہوا کرتے
تھے اور طلاق کے بعد عورت آگے دوسرے شخص سے نکاح کرتی تھی ، کیا
وہ سب حرام تھا ؟
(9) حمل میں طلاق : حاملہ کو بھی
طلاق ہوجاتی ہے اور اس کی عدت وضع حمل ہے ۔ یہی قرآن
وحدیث کا فیصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید
میں حاملہ عورتوں کی خود عدت بیان کہ ہے ۔ چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ
اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ترجمہ کنزالایمان: اور
حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔(پارہ28،سورۃ الطلاق،آیت4)
سنن کبری للبیہقی
میں ہے:”عن أم كلثوم بنت عقبة
أنها كانت تحت الزبير فطلقها وهي حامل فذهب الى المسجد فجاء وقد وضعت ما في
بطنها فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له ما صنع فقال: بلغ الكتاب أجله“ترجمہ:حضرت ام کلثوم رضی
اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حضرت زبیر رضی
اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں ،انہوں نے حمل کی حالت
میں انہیں طلاق دے دی ۔ حضرت زبیر رضی اللہ
عنہ مسجد نبوی کی طرف آرہے تھے ،وہ مسجد میں پہنچے ، تو
ام کلثوم نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کو پیدا کیا۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنامعاملہ عرض کیا ۔نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کتاب اپنی مدت
کو پہنچ گئی۔(یعنی قرآن میں حاملہ کی
عدت بچہ پیدا ہونا ہے ، وہ عدت پوری ہوگئی۔)(سنن کبری للبیهقی،باب
عدۃ الحامل المطلقۃ،جلد3،صفحہ154،مطبوعہ کراچی )
(10)طلاق دیتے وقت نیت:جب صریح الفاظ کے
ساتھ تین طلاقیں دی جائیں ، تو نیت ہویا نہ
ہو بہر صورت تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔اگر
نکاح و طلاق میں اس قسم کی نیتوں کا اعتبار کیاجائے ، تو
احکام معطل ہوجائیں ۔ جیسے کوئی شادی کے ایک
سال بعد بیوی سے کہے کہ میں نے گھر والوں کے کہنے پر بغیر
نیت ہی تمہارے ساتھ نکاح کیا تھایا کوئی بیوی
کو طلاق دے ، جب وہ عدت گزار کر کسی دوسرے سے نکاح کرلے ، تو پہلا شوہر کہے
: میں نے تو بغیر نیت طلاق دی تھی ۔الغرض
نکاح و طلاق مذاق بن کر رہ جائیں گے۔شرح السنہ للبغوی میں
ہے : ”اتفق أھل العلم علی
أن طلاق الھازل یقع واذا جری صریح لفظ الطلاق علی لسان
العاقل البالغ لا ینفعہ أن یقول کنت فیہ لاعبا أو ھازلا لأنہ لو
قبل ذلک منہ لتعطلت الأحکام“ترجمہ: اہل علم اس پر
متفق ہیں کہ مذاق میں بھی طلاق ہوجاتی ہے۔ اگر عاقل
بالغ آدمی کی زبان پر صریح طلاق کے الفاظ جاری ہوں ، تو
بعد میں اس کا یہ کہنا اسے نفع نہیں دے گا کہ میں نے یہ
کھیل کے طور پر یا مذاق کے طور پر کہا ہے ۔ اس لیے کہ اگر
اس عذر کو قبول کرلیا جائے ، تو پھر احکام معطل ہوکر رہ جائیں گے۔(شرح السنۃ، باب
الطلاق علی الہزل،جلد9،صفحہ220،مطبوعہ بیروت)
نوٹ !یہ بات یادر
ہے کہ طلاق کے مسئلہ میں علمائے کرام کی یہی کوشش ہوتی
ہے کہ کسی شرعی طریقہ سے میاں بیوی کا گھر بچ
جائے، لیکن جب بچت کی کوئی صورت نہ ہو ، تو عالم ایسا نہیں
کرسکتا کہ بغیر شرعی دلیل کے میاں بیوی کی
صلح کروادے، لہٰذا تین طلاقیں دینے کے بعد علماء سے بدظن
نہ ہوا جائے کہ یہ بچت کی کوئی صورت نہیں نکالتے۔علماء
کرام کو کیا ضرورت ہے کسی کا گھرخراب کرنے کی؟علماء کی
ذمہ داری شرعی حکم بیان کرنا ہےنہ کہ کسی کا گھر بچانے کی
خاطر اپنی آخرت خراب کرنا۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالی
عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: ”من أسوأ الناس منزلۃ
من أذھب آخرتہ بدنیا غیرہ “ترجمہ: لوگوں میں
سب سے بڑابدبخت وہ شخص ہے ، جو غیر کی دنیا کے لیے اپنی
آخرت خراب کرے۔( شعب الایمان ،باب
فی اخلاص العمل،جلد5،صفحہ358، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیا اب کیا حکم ہے؟
میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہےتو اب بچے کس کےپاس رہیں گے؟
میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی رہی کیا اب نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؟
اپنی روٹی الگ پکاؤ،مجھ سے دورہوجاؤ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلا ق ہوجاتی ہے یا نہیں؟
کیا سوتے میں طلاق دینے سے ہوجاتی ہے یا نہیں؟
طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟
جہیز کے سامان کا حکم