Talaq Ke Baad Jahez, Zewraat o Digar Saman Ki Wapsi Ka Hukum?

طلاق کے بعد جہیز، زیورات و دیگر سامان کی واپسی کا حکم

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:FMD 1390

تاریخ اجراء:23شعبان المعظم1440ھ/29اپریل2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام طلاق کے بعددرپیش ہونے والےدرج ذیل مسائل کے بارے میں:

    (1)عورت کوجہیزمیں جوکچھ زیوراورسامان وغیرہ اپنے والدین کی طرف سے ملا،طلاق ہوجانے کے بعدان کاحقدارکون ہے؟ عورت کو ملےگایاسسرال والوں کو؟

    (2)عورت کوجوزیورات شوہرکے والدین کی طرف سے ملے ، طلاق کے بعدان کاحقدارکون ہے؟

    (3)شوہرکوساس وسُسرکی جانب سےجوچیزیں ملیں مثلاًبائیک،گھڑی،انگوٹھی اورگولڈوغیرہ،وہ واپس کی جائیں گی یانہیں؟

    (4)عورت کے والدین نےعورت کی ساس کوسونے کاہارگفٹ کیا،کیاطلاق کے بعداس کی واپسی ہوگی یانہیں؟

سائل:زاہداحمدقریشی(کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       (1)جوکچھ زیور،سامان  وغیرہ عورت  کواپنے والدکی طرف سے جہیزمیں ملا،اس کی مالک صرف عورت ہےوہ اسی کوملے گاکسی اورکااس میں کوئی حق نہیں ہے۔

        ردالمحتارمیں علامہ شامی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں:”كل أحد يعلم أن الجهاز ملك المرأة وأنه إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها“یعنی ہرایک جانتاہےکہ  جہیزعورت کی ملکیت ہےلہذا جب شوہراسے طلاق دیدے تووہ تمام جہیزلے لے گی اورجب عورت مرجائے توجہیزمیں وراثت جاری ہوگی۔

(ردالمحتارعلی الدرالمختار،کتاب الطلاق،ج05،ص302،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی رضویہ میں ہے:”جہیز ہمارے بلاد کے عرف  عام شائع سے خاص مِلک زوجہ ہوتا ہے جس میں شوہر کا کچھ حق نہیں، طلاق ہُوئی تو کُل لے گئی، اور مرگئی تو اسی کے ورثاء پر تقسیم ہوگا“

(فتاوی رضویہ،ج12،203،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    فتاوی رضویہ میں ایک اورمقام پرہے:”زیور، برتن، کپڑے وغیرہ جوکچھ ماں باپ نے دختر کودیاتھا وہ سب ملک دخترہے “

(فتاوی رضویہ،ج26،211،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    (2)وہ زیورات جو عورت کو شوہر کے والدین کی طرف سے ملے ہیں ، اس کی تین صورتیں ہیں :

    1۔اگر شوہرکےوالدین نےزیورات عورت کے قبضہ میں دیتے وقت مالک بنانے یا ہبہ یا تحفہ دینے کی صراحت کردی تھی ۔ مثلاً لڑکی کو کہاکہ ہم نے یہ زیورات آپ کی ملک کئے یا آپ کو ہبہ کئے یا بطورِتحفہ دئے۔

    2۔تحفہ دینے یا مالک بنانے کی صراحت تو کسی نے بھی قبضہ دیتے وقت نہیں کی تھی ، لیکن خاندان کا عرف ہی یہ ہو کہ دیتے وقت مالک ہی بنادیتے ہیں ، تو مذکورہ ان دونوں صورتوں میں لڑکی ان زیورات کی مالکہ ہوجاتی ہے اور سسرال والے اب اس کے مالک نہیں رہتے اور اب ان کا طلاق سے پہلے یا طلاق کے بعد ان زیورات کی واپسی کا مطالبہ کرنا ، جائز نہیں۔

    3۔دیتے وقت نہ مالک بنانے کی صراحت کی اور نہ ہی وہاں مالک بنانے پر عرف جاری ہو ، بلکہ وہاں کا رواج یہ ہے کہ جب تک نکا ح میں لڑکی رہےتو یہ زیورات پہننے کی اسے اجازت ہوتی ہے ، لیکن جب طلاق ہوجائے ، تو واپس لے لیتے ہوں ، تو اس صورت میں وہ زیورات دینے والے کی ملک ہیں ۔ وہ لڑکی سے جب بھی واپس لینا چاہیں،تو لے سکتےہیں ۔

    یہی تینوں صورتیں اور ان کے احکام ،زیورات کے علاوہ دیگر سازوسامان کے بارے میں ہوں گے۔

    چنانچہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”چڑھاوے کا اگر عورت کو مالک کردیا گیا تھا خواہ صراحۃً کہہ دیا تھا کہ ہم نے اس کا تجھے مالک کیا یا وہاں کے رسم و عرف سے ثابت ہوکہ تملیک ہی کے طور پر دیتے ہیں جب تو وہ بھی عورت ہی کی ملک ہے ورنہ جس نے چڑھایا اس کی ملک ہے۔“

(فتاوی رضویہ،ج12،ص260،رضافاونڈیشن،لاھور)

    (3)شادی کے وقت سُسرال سےجوچیزیں شوہرکوملتی ہیں ۔ مثلاًبائیک،گھڑی،انگوٹھی اورگولڈوغیره ،عام عرف  یہی ہےکہ شوہرکوہبہ (گفٹ)کی جاتی ہیں اوراس سے مقصوداپنے دامادکوان چیزوں کامالک بناناہی ہوتاہے۔ نیزشادی کے بعدکی گفتگومیں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں کہ ہم نے دامادکو شادی کےوقت فلاں فلاں چیزگفٹ کی ہےوغیرہ،لہذا ایسی صورت حال میں شوہرقبضہ کرنے کے بعدقطعاًان چیزوں کامالک بن جاتاہے۔

    ہاں اگرکوئی معمولی یا قیمتی شےدیتے وقت صراحتاًکہہ دیا تھا کہ ملک نہیں کررہے ، بطور عاریت دے رہے ہیں یا بیٹی کی ملک کررہے ہیں ،تو پہلی صورت میں دینے والا جو پہلا مالک تھا ، اسی کی ملک باقی رہے گی اور دوسری صورت میں بیٹی کی ملکیت ثابت ہوگی ، جبکہ اس کا قبضہ بھی ہوچکا ہو ۔

    چنانچہ شادی کےوقت سُسرال سےملنے والےجوڑے کےمتعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن  فرماتے ہیں:”شوہر کا جوڑا ادھر سےآتا ہےبعد قبضہ قطعاً مِلک شوہر ہو جاتا ہے کہ لوگ اُس سےتملیک ہی کا قصد کرتے ہیں وذٰلک واضح لاخفاء بہ(اوریہ واضح ہے اس میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں)“      

(فتاوی رضویہ،ج12،ص204،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    تنبیہ:گفٹ کی تکمیل کےبعدحکم یہ ہوتاہےکہ اگرگفٹ کی واپسی کےموانع(جس کی تفصیل آگےچوتھی شق کےجزئیہ میں موجودہے)میں سےکوئی مانع نہ پایا جائے ، توقضائے قاضی یاباہم رضامندی سےواپس لینے کااختیار ہوتاہے یعنی واپس لیں گے، توواپسی صحیح ہوجائے گی ،لیکن واپس لینا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز وگناہ اورشرعاًنہایت قبیح فعل ہے ، جسےحدیث پاک میں کُتّے کےقےیعنی اُلٹی کرکےاُسے چاٹ لینے سے تعبیرکیاگیا ہے۔اگر کسی نے  گفٹ کی ہوئی چیز زبردستی چھین لی ، تو یہ شخص اُس گفٹ کی ہوئی چیز  کا مالک نہیں بنے گا،  بلکہ جس کو گفٹ دیا تھاوہ چیز اسی کی ملکیت میں باقی رہے گی ۔اور اس کے تمام تصرفات ،ملکِ غیر میں تصرف کرنا کہلائے گا۔

بخاری شریف میں ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:” العائد في هبته كالعائد في قيئه “ترجمہ: اپنے ہبہ سے رجوع کرنے والااپنی قے میں لوٹنے والے کی طرح ہے ۔

(صحیح بخاری ،کتاب الھبۃ،ج3،ص164،دارطوق النجاة،مصر)

    فتاوی رضویہ میں ہے”اگر موانع رجوع نہ ہوں جب بھی رجوع کا خود بخود اختیارنہیں ہوتا بلکہ یا تو موہوب لہ (جس شخص کو گفٹ دیا گیا ہو اس ) کی مرضی سے ہبہ واپس کر لے یا نالش کر کے بحکم حاکم رجوع کرے ،اس کے بعد دوسرے کو ہبہ کر سکتا ہے بغیر اس کے وہی ملک غیر کا ہبہ ہے۔“      

(فتاوی رضویہ، ج 19، ص 332، رضا فاؤنڈیشن ،لاهور)

    فتاوی رضویہ میں  سُسرال کی جانب سےملنے والےجوڑے کی واپسی کے بارے میں لکھاہے:” اگرجوڑا مِلکِ شوہر میں موجود اور باقی موانع رجوع بھی مفقود ہوں مثلاً والدینِ زن نے بنایا تو اُن سے قرابت محرمہ نسبیہ نہ ہو، یا مالِ زوجہ سے بنا تو پیش ازنکاح بھیجا گیا ہوتو شوہر کی رضا یاقاضی کی قضا سے رجوع کا اختیار ہوگا کہ طرفین سے جوڑیں کا جانابحکمِ عرف دونوں جانب کی مستقل رسم ہے،نہ ایک دوسرے کے عوض  میں، ولہذا اگر ایک جا نب سے مثلاً بوجہ افلاس جوڑا نہ آئے تو بھی دوسری طرف والے بھیجتے ہیں تو عوض صریح کہ موانع رجوع سے ہے متحقق نہیں، پھر دُولہاکی جانب سےبری میں ہرگز  اُس جوڑے کا خیال نہیں جودُولہا کو ملتا ہے بلکہ محض ناموری یا وہی کثرتِ جہیز کی طمع پروری، بہر حال یہ ہبہ معاوضہ سے خالی ہے تو بشرائط مذکورہ دُلہن والوں کو رجوع کا اختیار،مگر گنہگار ہوں گےاس صورت میں شوہر نے اگر یہ جوڑا واپس کردیا تو رجوع صحیح ہوگئی اور اس کی مِلک سے خارج ہوگیا لتحقق الرجوع بالتراضی(باہمی رضامندی سے رجوع متحقق ہونے کی وجہ سے)“

(ملتقطا از فتاوی رضویہ،ج12،ص204-05،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    (4)عورت کےوالدین نےعورت کی ساس یعنی اپنی سمدھن کوجوسونے کاہارگفٹ کیا ، تواس کاحکم وہی ہے ، جوتیسری شق میں گزرایعنی ہبہ کی واپسی سےکوئی مانع نہ پایاجائےتوقاضی کی قضایاسمدھن کی رضامندی سےواپس لینے کااختیار ہے ، لیکن  تحفہ دینے والا  تحفہ واپس لینے کی صورت میں گناہ گارضرورہوگا۔

    موانعِ رجوع میں سے کوئی نہ ہوتوموہوب لہ کی رضایاقضائے قاضی سے ہبہ میں رجوع ہوسکتاہے۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر وہ شخص اس کا ذی رحم محرم نہیں یعنی نسب کے رو سے ان میں باہم وہ رشتہ نہیں جو ہمیشہ ہمیشہ حرمت نکاح کا موجب ہوتاہے جیسے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی، بیٹا ، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، نہ یہ واھب وموہوب لہ وقت ھبہ باہم زوج وزوجہ تھے، نہ موہوب لہ وقت ہبہ فقیر تھا، نہ اب تک موہوب لہ اس ھبہ کے عوض میں کوئی چیز یہ جتا کرواہب کود ے چکا ہے کہ یہ تیرے ہبہ کا معاوضہ ہے، نہ اس عین شیئ موہوب میں کوئی ایسی زیادت موہوب لہ کے پاس حاصل ہوئی اور اب تک باقی ہے جس سے قیمت بڑھ جائے جیسے زمین میں عمارت یا پیڑ یاکپڑے میں رنگ یا جاندار میں فربہی یاکنیز میں حُسن یا اسے کوئی صنعت یا علم آجانا تو ان سب شرائط کے ساتھ جب تک وہ شے موہوب اس موھب لہ کی ملک میں باقی وقائم اور واہب وموہوب لہ دونوں زندہ ہیں اگرچہ ھبہ کو سو برس گزر چکے ہوں واپس لینے کا اختیار ہےبایں معنی کہ یا تو موہوب لہ خود واپسی پر راضی ہوجائے یا یہ بحکم حاکم شرع واپس کرالے ورنہ آپ جبرا لے لینے کا کسی غیر حاکم شرعی کے حکم سے واپس کرانے کا اصلا اختیار نہیں یونہی اگر ان آٹھ شرطوں میں سے کوئی بھی کم ہے توواپسی کا مطلقا اختیار نہ ہوگا، پھر یہاں اختیار کا صرف اتنا حاصل کہ واپسی صحیح ہوجائے گی لیکن گناہ ہرطرح ہوگا کہ دے کر پھیرناشرعا منع ہے، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کی مثال ایسی فرمائی جیسے کتا قے کرکے چاٹ لیتاہے“

(فتاوی رضویہ،ج19،ص198،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم