Talaq Ke Baad Bache Kiske Paas Rahenge?

 

طلاق کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے ؟

مجیب:مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8995

تاریخ اجراء: 12 محرم الحرام 1446ھ /19جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ دار الافتاء اہلِ سنت  دعوتِ اسلامی سے  حاصل کردہ فتویٰ کے مطابق میری بیوی کو تین طلاقیں ہو چکی ہیں۔ اب صورتِ حال یہ  ہے کہ ہمارے دو بیٹے بھی ہیں۔ایک کی عمر نو سال اور دوسرے کی دس سال ہے۔ شرعی اعتبار سے اُن بچوں کو رکھنے اور پالنے کا حق کس کے پاس ہے؟ شرعی حکم بیان فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں موجودہ عمر کے اعتبار سے شرعاً اُن بچوں کی پرورش کا حق ”والد“کے پاس ہے، کیونکہ طلاق ہوجانے کی صورت میں لڑکے کی عمر سات سال مکمل ہونے تک اُس کی پرورش کا حق ماں کو ہوتا ہے  اور سات سال مکمل ہونے کے بعد یہ حق والد کو حاصل ہو جاتا ہے کہ باپ اِس مرحلے میں بچے کی تعلیم و تربیت وغیرہا کے معاملات ماں کی بنسبت زیادہ اچھی طرح کر سکتا ہے ،لیکن یاد رہے کہ جب بچے والد کے پاس رہیں گے، تو اُن  بچوں کی والدہ کو بچوں سے ملاقات کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر والد ، ماں  کو بچوں سے ملاقات کرنے  میں رکاوٹ بنے یا بچوں کو ماں سے دور کرنے کی کوشش کرے، تو یہ حرکت  ناجائز، گناہ اور سخت حرام ہے۔

   لڑکے کی عمر سات سال مکمل ہونے تک پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:حق حضانت لڑکے میں سات اور دختر میں نو برس کی عمر تک رہتا ہے، اس کے بعد عصبہ کے پاس رہے گی، جو عصوبت میں مقدم یہاں بھی مقدم ہے۔(فتاوٰی رضویہ، جلد13،صفحہ402،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اور جب لڑکا سات سال کی عمر مکمل کر چکا ہو، تو ماں یا بالترتیب دیگر محارم خواتین کا حقِ حضانت ساقط ہو جاتا ہے اور اب حقِ پرورش باپ کو مل جاتا ہے، چنانچہ”الدرالمختار وردالمحتار“ میں ہے:”إن لم يكن للصغير أحد من محارمه النساء بحر، أو كان إلا أنه ساقط الحضانة لأنه كالمعدوم فيقدم الأب“ترجمہ:اگر نابالغ کے لیے کوئی محرم خاتون(حاضِنہ)  نہ ہو یا ہو مگر اُس کا حقِ حضانت کسی بھی وجہ(مثلاً: عمر مکمل ہونے) سے ساقط ہو چکا ہو، تو اب محارم کا حقِ حضانت کالعدم سمجھا جائے گا اور اب پرورش کے لیے ”والد“ کو مقدم کیا جائے گا۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 10،باب الحضانۃ،  صفحہ 452 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) نے لکھا:”اگر کوئی عورت پرورش کرنے والی نہ ہویاہو مگر اس کاحق ساقط ہو،توعصبات بترتیبِ اِرث یعنی باپ پھردادا۔۔۔الخ          (بھار شریعت، جلد02، صفحہ254، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

   بچے کی پرورش کو 7 سال  کی عمر تک خاص کرنے کی وجہ  کے متعلق ”بحر الرائق“ میں ہے:”أن الصغير إذا بلغ السبع يهتدي بنفسه إلى الأكل والشرب واللبس والاستنجاء وحده فلا حاجة إلى الحضانة “ترجمہ:چھوٹا بچہ جب سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے، تو وہ خود ہی کھانے، پینے، پہننے اور قضائے حاجت کے معاملات سمجھ چکا ہوتا ہے، لہذا اب اُسے اِن معاملات میں پرورش کی حاجت نہیں۔(بحر الرائق، جلد4، کتاب الطلاق، باب الحضانۃ، صفحہ287، مطبوعہ کوئٹہ )

   اب اُس کی عمر اخلاقی رویوں اور اُمورِ معاشرت کو سمجھنے اوراُن کی اِصلاح کرنے کی ہے، جس کے لیے والد زیادہ سازگار ہے، چنانچہ صاحبِ ترجیح علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:593ھ/1196ء) نے لکھا:”وجهه أنه اذا استغنى يحتاج الى التأدب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقھم والأب أقدر على التأديب والتثقيف“ ترجمہ : اس کی وجہ یہ ہے کہ جب لڑکا  سات سال کی عمر مکمل ہونے پر خاتون کی پرورش کا محتاج نہ رہا، تو اب اُسے تعلیم و تربیت اور مردانہ طور طریقے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور احسن انداز سے تعلیم و تربیت اور مردانہ طور طریقے سکھانے پر زیادہ باپ ہی قادر ہوتا ہے ۔ (الھدایۃ فی شرح بدایۃ  المبتدی، جلد02، صفحہ 284، مطبوعۃ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   جب بچہ باپ کے پاس ہو گا، تو ماں کو ملاقات سے روکا نہیں  جا سکتا، چنانچہ علامہ دہلوی ہندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:” الولد متی کان عند أحد الأبوین لا یمنع الآخر عن النظر الیہ وعن تعاھدہ ترجمہ: جب اولاد والدین میں سے کسی ایک کے پاس ہو،تو دوسرے کو اولادکودیکھنے اور دیکھ بھال کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ (الفتاوٰی التاتارخانیۃ، جلد05، صفحہ274،مطبوعہ کوئٹہ )

   ”فتاوٰی رضویہ“ میں اِسی نوعیت کے سوال کے جواب میں ہے:” یہ سب مسائل درمختار عامہ کتب میں مصرح ہیں ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچہ ماں سے بالکل تڑا لیا جائے ،  اس سے ملنے تک نہ دیں، یہ حرام اور سخت حرام ہے۔سنن ابن ماجۃ“ میں ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے ہے ، رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: لَعَنَہُ ﷲ مَنْ فَرَّق بین الوالدۃ وولدھا “بکر پرلازم ہے کہ اِس حرکت سے توبہ کرے اور بچے کو اس کی ماں سے ملنے دے اور بلاوجہ ایذائے مسلمان کا شدید وبال اپنے سر نہ لے۔“(فتاوٰی رضویہ، جلد13،صفحہ411،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم