Shohar Talaq Ke Baad Ruju Kare To Kya Aurat Ka Qubool Zaroori Hai?

 

شوہر طلاق کے بعد رجوع کرے، تو کیا عورت کا قبول کرنا ضروری ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8975

تاریخ اجراء: 27 ذوالحجۃ الحرام1445ھ/04جولائی  2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  ایک شوہر نے اپنی مدخولہ بیوی سے کہا: میں تمہیں  ایک طلاق دیتا ہوں“ صرف یہی بولا اور ایک ہی طلاق دی۔ اِس سے پہلے  کبھی طلاق نہیں دی۔ پھر تین دن بعد رجوع  کی نیت سے یوں کہا کہ ”میں تم سے صلح کرتا ہوں“ لیکن عورت نے اِس رجوع کو قبول نہیں کیا اور کیس (Case) کر دیا۔ تین سال یونہی گزر گئے۔ اِس عرصے میں خلع یا طلاق وغیرہا کچھ نہیں ہوا۔ اب دونوں خاندان راضی ہیں اور یہ مرد وعورت اکٹھے رہنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ دونوں ایک ساتھ رَہ سکتے ہیں اور اِن کا نکاح باقی ہے یا دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جب ایک طلاقِ رجعی کے  تین دن بعد ، دورانِ عدت شوہر نے  رجوع کی نیت سے اپنی بیوی کو یوں کہا:” میں تم سے صلح کرتا ہوں“ تو یہ کہنے سے رجوع ہو گیا۔ بیوی کا رجوع کو قبول نہ کرنا یا مرد کے رجوع پر رضا مندی کا اظہار نہ کرنا،  اِس ”رجوع“ پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا، بلکہ شریعت کی نظر میں  رجوع ثابت ہو چکا۔اب جبکہ تین سال کا عرصہ دوریاں رہیں، لیکن اِس عرصے میں کوئی نئی طلاق نہیں ہوئی، تو اُن دونوں کا نکاح باقی ہے، لہٰذا  شرعاً مرد وعورت اکٹھے رَہ سکتے ہیں، کہ وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی ہیں۔ نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔

لفظِ ”صلح “ سے رجوع:

   صیغہِ”صلح“کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو،تو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہترہے۔‘‘( پ 05، النساء 128)

   اِس آیت کے شانِ نزول کے متعلق شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:855ھ/ 1451ء) لکھتےہیں:’’نزلت في رافع بن خديج طلق زوجته واحدة وتزوج شابة، فلما قارن انقضاء العدة قالت: أصالحك على بعض الأيام، ثم لم تسمح، فطلقها أخرى ثم سألته ذلك فراجعها، فنزلت هذه الآية ۔۔۔ ﴿ وَالصُّلْحُ خَیْرٌ أي: من الفرقة أو من النشوز والإعراض وسوء العشرة‘‘ترجمہ:یہ آیت حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق اُتری۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق دے کر  ایک جوان لڑکی سے شادی کر لی،لیکن جب پہلی بیوی کی عدت پوری ہونے کے قریب ہوئی تو بیوی نے کہا:میں آپ سے بعض ایام پر صلح کرتی ہوں۔(انہوں نے اِس صلح کو بطورِ رجوع قبول کر لیا، مگر)پھر وه خاتون گھر چلا نہ سکی، تو حضرت رافع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں دوسری طلاق دے دی،  پھر ان کی بیوی نے ان سے یہی کہا، تو انہوں نے رجوع کر لیا،  اس پر یہ آیت نازل ہوئی﴿ وَالصُّلْحُ خَیْرٌ ﴾یعنی  صلح فرقت ، زیادتی ، اعراض اور برے برتاؤسے  بہتر ہے۔(عمدۃ القاری، جلد13، صفحہ271، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   اِس شانِ نزول میں لفظِ ”صلح“ جدائی اور  فرقت کے مدمقابل استعمال ہوا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ میاں بیوی کے مابین فرقت کے مقابلے میں ”صلح“ رجوع ہے ، لہذا یہ لفظ رجوع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، لیکن یاد رہے کہ  ”صلح“ صرف طلاق سے رجوع کرنے کے معنی میں خاص نہیں،  بلکہ مختلف معانی اور تعبیرات میں ”صلح“ کا صیغہ استعمال ہوتا ہے، چنانچہ ﴿ وَالصُّلْحُ خَیْرٌ ﴾کے تحت امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال :710ھ/1310ء) لکھتے ہیں:’’من الفرقة أو من الشوز أو من الخصومة في كل شيء ‘‘ ترجمہ:”صلح“ جدائی، زیادتی یا کسی بھی چیز کے متعلق جھگڑنے سے بہتر ہے۔(تفسیر النسفی، جلد01، صفحہ401، مطبوعہ  دارالکلم الطیب، بیروت)

   لہذا معلوم ہوا کہ لفظِ ”صلح“  صرف  رَجعت کے لیے مخصوص نہیں،اِس وجہ سے یہ  لفظ  رجوع کے باب میں ”کنایہ“  کہلائے گا، صریح نہیں، جیسا کہ ” کنایہ “ کی تعریف یوں ہے:’’إما كناية۔۔۔وهو ما يحتمل الرجعة وغيرها‘‘ ترجمہ:دوسری قسم کنایہ ہے،یعنی جو صیغہ رجعت کے علاوہ دیگر معانی کا بھی احتمال رکھے۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، جلد09، صفحۃ 6991، مطبوعہ کوئٹہ)

  اور  وہ الفاظ کہ جن میں رجوع کے علاوہ دیگر معانی کا بھی احتمال موجود ہو، تو اُن الفاظ سے رجوع کرنے کے لیے  نیتِ رجوع  ہونا ضروری ہے،چنانچہ  علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/ 1836ء ) نےلکھا:’’الأول قسمان: صريح ۔۔۔وكناية مثل أنت عندي كما كنت وأنت امرأتي، فلا يصير مراجعا إلا بالنية‘‘ ترجمہ:رجوع بالقول کی دو قسمیں ہیں۔ (1)صریح  (2)کنایہ، مثلاً :”تم میرے لیے ویسی ہی ہو، جیسی پہلے تھی“ ”تم میری عورت ہو“ الفاظِ کنایہ  کی ادائیگی میں نیت کرنے  سے ہی رجوع کرنے والا قرار دیا جائے گا۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد 09،باب الرجعۃ،  صفحہ 613 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

رجوع  کے لیے بیوی کی رضا مندی کا حکم:

   رجوع کے لیے عورت کی رضامندی یا اُس کا رجوع کو قبول کرنا  لازم نہیں، بلکہ  جب مرد نے رجوع کر لیا، تو ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں فعلِ رجوع کی نسبت مردوں کی طرف کی ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں پھیر لینے کا حق رکھتے ہیں، اگروہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں۔‘‘( پ 02، البقرۃ 228)

   آیت مبارکہ میں ﴿اَحَقُّ﴾کے تحت صاحبِ ترجیح علامہ ابنِ کمال پاشا حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:940ھ /1534ء) نےلکھا:’’معنى ﴿اَحَقُّأن الرجل إذا أراد الرجعة وأبتها المرأة فهو أحق بقبول قوله، لا أن لها حقا في الرجعة‘‘ ترجمہ:”اَحَقُّ “  کا معنی یہ ہے کہ جب شوہر رجوع کا ارادہ کرے اور عورت انکار کرتی ہو، تو مرد اپنے قول کو قبول کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔صیغہِ اسم تفضیل کا مفہومِ مخالف یہ نہیں کہ عورت کو بھی رجوع کا حق ہے۔ (تفسیر ابن کمال باشا، جلد 02، صفحہ 114، مطبوعہ  مکتبۃ الارشاد، اسطنبول)

   عورت کے رجوع کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔ صاحبِ ترجیح علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:’’إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض‘‘ ترجمہ:جب شوہر  بیوی کو ایک طلاق رجعی یا دو طلاقیں دیدے، تو اُسے دورانِ عدت رجوع  کا حق حاصل ہے، خواہ بیوی رضا مند ہو یا نہ ہو۔(الھدایۃ فی شرح بدایۃ  المبتدی، جلد02، صفحہ 254، مطبوعۃ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   اِس کے تحت امام کمال الدین  ابنِ ہُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:861ھ/1456ء) نے لکھا:”قوله تعالى﴿ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ ظاهر في عدم توقف الرجعة على رضاها لأنه تعالى جعله أحق مطلقا: أي هو الذي له حق الرجعة وإن أبت هي وأبوها‘‘ ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان﴿ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ رجعت عورت کی رضامندی پر موقوف نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو ہی مطلقاً زیادہ حق دار قرار دیا ہے، یعنی شوہر کو ہی رجوع کا حق حاصل ہے، اگرچہ  بیوی یا اُس کا والد رجوع  کا انکار کریں اور قبول نہ کریں۔(فتح القدیر، جلد04، صفحہ141، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   نیز  بیوی کی رضا یا عدمِ رضا کے غیر معتبر ہونے  کا حکم مجمع علیہ ہے۔ صاحبِ ہدایہ کی عبارت کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےلکھا:’’وهذا بإجماع أهل العلم ‘‘ ترجمہ:اور یہ مسئلہ اہلِ علم کے اجماع سے ثابت ہے۔(البنایۃ شرح الھدایہ، جلد05، صفحہ 455، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’رجعت میں عورت کی رضا مندی ضروری نہیں، بلکہ عورت انکار کرے، جب بھی رجعت ہو جائے گی۔‘‘(فتاوٰی امجدیہ، جلد02، صفحہ273،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم