Shohar Dusre Mulk Se Talaq De To Kya Talaq Ho Jati Hai ?

شوہر دوسرے ملک سے طلاق دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے؟

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2940

تاریخ اجراء: 30محرم الحرام1446 ھ/06اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے شوہر کو ملک سے باہر گئے  ایک سال ہو  گیا ہے  اور مجھے 8 جون کو طلاق ہو گئی تھی  اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ؛ کیونکہ تمہارا شوہر باہر تھا تو پوچھنا یہ ہے کہ  اس طرح طلاق ہو جاتی ہے  یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے شوہر نے واقعی آپ کو طلاق دی ہے تو آپ کو طلاق ہو گئی ہے ؛  اس لیے کہ  طلاق واقع  ہونے کے لیے شوہر کا سامنے موجود ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر شوہر  نے طلاق دی اور عورت کو اس بارے میں معلوم نہ ہو تب بھی طلاق ہو جائے گی ؛ کیونکہ شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے اور شوہر اپنی بیوی کوطلاق دینے کے معاملے میں منفرد و مستقل ہے،لہٰذا جب بھی شوہر اپنی بیوی کے لئے طلاق کے الفاظ اتنی آواز سے کہے جو خود شوہر کے  کان تک پہنچنے کے قابل ہوں یالکھ کرطلاق دے(اوراس کی شرائط پائی جائیں)،تو طلاق واقع ہوجائے گی خواہ وہ بیوی کے پاس موجود ہو یا نہ ہو یا بیوی نے طلاق کے الفاظ سنے ہوں یا نہ سنے ہوں یا بیوی کو شوہر کے طلاق دینے کا علم ہو یا نہ ہو ۔

   شوہر طلاق دینے کے معاملے میں منفرد و مستقل ہےاور طلاق کا واقع ہوناعورت کے معلوم ہونے پر موقوف نہیں،اس کے متعلق محیط برہانی میں ہے”ان الزوج ينفرد بايقاع الطلاق الثلاث ولا يتوقف ذلك على علم المراة یعنی شوہر تین طلاقیں واقع کرنے میں منفرد ہے اور طلاق کا واقع ہونا عورت کے معلوم ہونے پر موقوف نہیں۔(المحیط البرھانی، ج 4،ص 50،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں:”طلاق میں شوہر مستقل ہے ،عورت کی موجودگی یا علم ضرور نہیں۔“ (بہارِ شریعت، ج 2،حصہ 11، ص  790،مکتبۃ المدینہ)

    شوہر نے جب اتنی آواز سے طلاق کے الفاظ کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے ، تو طلاق واقع ہوجائے گی خواہ عورت نے الفاظ نہ سنے ہوں،اس کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی  علیہ فرماتے ہیں : ”طلاق کے لئے زوجہ خواہ کسی دوسرے کا سُننا ضرور نہیں،جبکہ شوہرنے اپنی زبان سے الفاظِ طلاق ایسی آواز سے کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے اگر چہ کسی غل، شور یا ثقلِ سماعت کے سبب (آواز)نہ پہنچی، عند اﷲطلاق ہوگئی۔“(فتاوی رضویہ، ج 12، ص 362، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم