Nifas Ki Halat Mein Talaq Dena Kaisa? Iddat Ka Kya Hukum Hoga?

 

نفاس کی حالت میں طلاق دینا کیسا؟ اورعدت کا کیا حکم ہوگا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2650

تاریخ اجراء: 30محرم الحرام 1446ھ/06 اگست 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جس عورت کو نارمل روٹین سے ماہواری آتی ہو ، ایسی عورت کو نفاس کی حالت میں اس کا شوہر طلاق دیدے ، تو اس کی عدت کب شروع ہوگی اور کب تک ہوگی ؟ کیا جب نفاس ختم ہوگا ،تو عدت ختم ہوجائے گی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اس عورت کو جب سے طلاق ہوئی ہے ، اُسی وقت سے ہی اس کی عدت شروع ہوجائے گی اور اس کی عدت بھی تین ماہواریاں (حیض) ہی ہے یعنی جب یہ نفاس ختم ہوگا ، اس کے بعد پاکی کے دن آئیں گے اور پھر تین ماہواریاں ختم ہوں گی ، تو اس عورت کی عدت مکمل ہوجائے گی ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت کی عدت دو طرح کی ہوتی ہے :

   (1) امید (حمل ) سے ہے ، تو بچے کی ڈِلوری تک عدت ہوتی ہے ، یعنی جس وقت اس کو طلاق ہوئی تھی ، اس وقت وہ امید (حمل ) سے تھی ، تو جب اس کے یہاں بچے کی پیدائش ہوگی ، تو اس کی عدت مکمل ہوجائے گی ۔

   (2) اور اگر وہ عورت امید (حمل ) سے نہیں ہے ، تو پھر اس کی عدت ماہواری یعنی حیض والی متعین ہوتی ہے(البتہ جس کو ماہواری نہیں آتی ، تو اس کے لیے مہینوں کی تعداد کے اعتبار سے تفصیل ہے ، بہرحال ) طلاق پاکی کی حالت میں ہوئی ہو یا ماہواری کی حالت میں ہوئی ہو یا نفاس کی حالت میں ہوئی ہو ، اس کی عدت تین مکمل ماہواریاں ہی ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ نفاس میں طلاق ہو ، تو حیض کی بجائے نفاس کو عدت شمار کر کے نفاس ختم ہونے پر عدت ختم ہونے کا حکم ہو ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب اس عورت کو طلاق ہوئی تھی ، تو وہ امید (حمل ) سے نہیں تھی ، جس وجہ سے اس کی عدت دوسری قسم یعنی حیض والی متعین ہوگئی اور نفاس میں جب طلاق ہوئی ، عدت شروع تو اُسی وقت سے ہوگئی ، لیکن ختم اُس وقت ہوگی کہ جب اس نفاس کے بعد پاکی ہوگی اور اس کے بعد تین ماہواریاں ختم ہوجائیں گی ، اس کے علاوہ اس نفاس کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا کہ نفاس ختم ہوگیا، تو عدت ختم ہوگئی ، ایسا نہیں ہے ۔

   جو عورت امید (حمل ) سے ہو ، اس کی عدت کے متعلق قرآنِ پاک میں ہے:﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ترجمہ کنزالایمان:’’اور حمل والیوں کی میعادیہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔‘‘(پارہ 28،سورۃ الطلاق، آیت4)

   اس کے تحت تفسیر نسفی میں ہے :’’والنص یتناول المطلقات والمتوفیٰ عنھن ازواجھن ‘‘ ترجمہ:یہ نص طلاق یافتہ اور جن کے شوہر وفات پا چکے ہوں ، ان تمام عورتوں کو شامل ہے (یعنی تمام کی عدت وضعِ حمل ہے ۔) (تفسیر نسفی،جلد 3،صفحہ 499، مطبوعہ لاھور)

   جس طلاق یافتہ عورت کو ماہواری آتی ہو ، اس کی عدت سے متعلق قرآنِ پاک میں ہے: ﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓ ءٍ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان : ”اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں  ۔(پارہ 2 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 228)

   اس کے تحت تفسیر نعیمی میں ہے: ” یہ عدت صرف مدخول بہا  (جس سے شوہر کی خلوت ہوگئی ہو )غیر حاملہ قابلِ حیض آزاد عورت کے لیے ہے ۔ “(تفسیر نعیمی ، جلد 2 ، صفحہ 406 ، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ، لاھور )

   عدت میں نفاس کو شمار نہیں کیا جاتا ، چنانچہ مبسوطِ سرخسی میں ہے:” والنفاس كالحيض فيما ذكرنا من الأحكام إلا في حكم الاستبراء وانقضاء العدة حتى لو اشترى جارية بعد ما ولدت فإذا طهرت من نفسها لم يكن له أن يطأها حتى يستبرئها بحيضة وكذلك النفاس لم يعتبر من أقراء العدة “ ترجمہ: (ناپاکی سے متعلق )  جو احکام ہم نے ذکر کیے ہیں ، ان میں نفاس حیض کی طرح ہے ، سوائے استبراء اور عدت گزرنے کے معاملے میں ، یہاں تک کہ اگر ایک لونڈی کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی ، اس کے بعد کسی شخص نے اسے خریدا ، تو جب وہ نفاس سے پاک ہوگی ، تو مالک کے لیے اس سے قربت کرنا ، جائز نہیں ہے ، یہاں تک کہ وہ ایک حیض کے ذریعے استبراء نہ کر لے ۔ اسی طرح (آزاد عورت کے معاملے میں ) نفاس کو عدت کے جو حیض ہوتے ہیں ، ان میں شمار نہیں کیا جائے گا ۔(کہ نفاس ختم ، تو عدت ختم ہو  ، ایسا نہیں ہے )(المبسوط للسرخسی ، کتاب الحیض و النفاس ، جلد 3 ، صفحہ 153، مطبوعہ دار المعرفہ ، بیروت )

   نفاس کی حالت میں طلاق ہونے کی صورت میں عدت سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”وصورة العدة: إذا قال لامرأته إذا ولدت فأنت طالق فولدت ثم قالت مضت عدتي فإنها تحتاج إلى ثلاث حيض ما خلا النفاس “ ترجمہ: ترجمہ: اس میں عدت کی صورت یوں ہوگی کہ جب کسی نے اپنی بیوی کو کہا : جب تیرے ہاں بچے کی ولادت ہوگی ، تو تجھے طلاق ، اس عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا ، پھر اس نے کہا کہ میری عدت گزر گئی ہے ، تو وہ نفاس کے علاوہ تین حیض گزرنے  کی محتاج ہوگی ۔(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، جلد 1 ، صفحہ 546، مطبوعہ کوئٹہ )

   نوٹ:نفاس کی حالت میں طلاق دینے سے اگرچہ طلاق واقع ہوجاتی ہے ، لیکن جس طرح ماہواری کی حالت میں طلاق دینا ناجائز و گناہ ہے ، اسی طرح نفاس کی حالت میں بھی طلاق دینا ناجائز و گناہ ہے ۔

   چنانچہ حیض کی حالت میں بیوی کو طلاق دینے کی ممانعت بیان کرنے کے بعد علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نفاس کے متعلق فرماتے ہیں:” ولما كان المنع منه فيه لتطويل العدة عليها كان النفاس كالحيض كما في الجوهرة “ ترجمہ: عدت طویل ہونے کی وجہ سے حیض کی حالت میں طلاق دینا جب منع ہے ، تو نفاس بھی (اس معاملے میں ) حیض کی طرح ہی ہے ۔ جیسا کہ الجوہرۃ النیرہ میں ہے ۔(بحر الرائق ، کتاب الطلاق ، جلد 3 ، صفحہ 260 ، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی ، بیروت )

   اورالجوہرۃ النیرہ میں ہے : ” وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا فی طهر واحد فإذا فعل ذلك وقع الطلاق و بانت منہ وكان عاصيا ۔۔۔  و کذا الطلاق فی حالة الحيض مكروه لما فيه من تطويل العدة على المرأة ، وكذا فی النفاس أيضاً   ترجمہ : اور طلاق دینے کے ناجائز طریقوں میں سے یہ بھی ہے کہ شوہر بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی کلمے کے ساتھ دے یا ایک طہر میں تین طلاقیں دے ، اگر ایسا کرے گا ، تو طلاق واقع ہوجائے گی اور (تین طلاقوں کی وجہ سے) عورت اس مرد کے نکاح سے نکل جائے گی اور وہ شوہر گنہگار ہوگا ۔ ( مزید آگے طلاقِ بدعی کی مثالیں دیتے ہوئے فرمایا : ) اور اسی طرح حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہ (تحریمی )ہے ، کیونکہ اس سے عورت کی عدت لمبی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح نفاس کی حالت میں طلاق دینا بھی ( مکروہ تحریمی ہے) ۔ ( الجوھرۃ النیرۃ ، کتاب الطلاق ، طلاق البدعۃ ، جلد 2 ، صفحہ 31 ، المطبعۃ الخیریہ ، بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم