Stamp Likhne Wale Ek Sath 3 Talaq Ka Stamp Likh Sakte Hain?

 

اسٹام لکھنے والے اکٹھی تین طلاق کا اسٹام لکھ سکتے ہیں؟

مجیب:  محمدعرفان مدنی
مصدق: ابوالحسن   مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: GRW-1456

تاریخ اجراء: 12ربیع الآخر1446 ھ/16اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ   ہم اسٹام تیارکرتے ہیں،ہمارے پاس طلاق کااسٹام تیارکروانے  کے لیے آنے والے عموماًاکٹھی تین طلاقوں کااسٹام تیار کرواتے ہیں ،شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ہمارااکٹھی تین طلاقوں کااسٹام تیارکرناکیساہے؟نیزاس وقت اس کی بیوی ماہواری کی حالت میں ہے یاپاکی کی حالت  میں ،اس کابھی ہمیں  علم نہیں ہوتا،توایسی صورت میں طلاق کاپیپرتیارکرناکیساہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آج کل جوعمومی طلاق کےاسٹام نظروں سے گزرتے ہیں ،ان میں یاتوایک وقت میں دوطلاقیں لکھی ہوتی ہیں یاتین یاتین سے زائدطلاقیں لکھی ہوتی ہیں ،اسی طرح بلاحاجت طلاق بائن لکھی ہوتی ہے ، حالانکہ یہ تمام صورتیں شرعاناجائزوگناہ ہیں اوراسٹام فروش ان میں سے کوئی طریقہ اپنائے گا یعنی بلاحاجت طلاق بائن لکھے گایاایک  ہی وقت میں دویا تین یاتین سے زائدطلاقیں لکھےگاتووہ بھی گنہگار ہوگاکہ وہ طلاق کاوکیل ہے اوراس صورت میں اس کے لکھنے سے  ہی طلاق ہوگی، لہٰذایہ پوراپوراتعاون کررہاہے ،جیسے عدت میں نکاح پڑھانے والا گنہگارہے کہ گناہ میں تعاون کررہا ہے ۔اسی طرح والداورلڑکی کی مرضی واجازت کے بغیربالجبرکیے جانے والے نکاح میں نکاح کے وکیل اور گواہ بننے والے اوران کے علاوہ تعاون کرنے والوں کوگنہگارقراردیاگیاہے۔

   اسے اس موقع پرشرعی حکم بتاکرشرعی طریقہ کارکے مطابق طلاق دینے کاذہن بنانا چاہیے اوریہ بھی بتاناچاہیے کہ عورت کوماہواری کی حالت میں طلاق دیناگناہ ہے، تاکہ شوہرطُہرمیں طلاق دے،بلکہ جس طہرمیں وطی کرچکاہے ،اس میں بھی طلاق دینے کی اجازت نہیں ،لہٰذاایسے طُہرمیں طلاق دی جائے کہ جس میں عورت سے وطی(صحبت)نہ کی ہو۔

   لیکن اگرشوہرنے اسٹام فروش کویہ نہیں بتایاکہ عورت اس وقت کس حالت میں ہے یاطہرمیں ہے تووہ وطی کرچکاہے یانہیں،تواس  وجہ سے اسٹام فروش گنہگارنہیں ہوگاکہ اس پرتفتیش کرنالازم نہیں ہے ،جیسے کوئی ہمارے سامنےکھانا لائے توبلاوجہ اس سے تفتیش کرنے کاحکم نہیں کہ حلال طریقے سے حاصل کیاہے یاحرام طریقے سےوغیرہ ؟

   ہمیں مسلمان کے معاملے کواچھی صورت پرہی محمول کرنے کاحکم ہے ، لہٰذایہی حُسنِ ظن رکھیں گے کہ یہ ماہواری کی حالت میں طلاق نہیں دے رہااوراسی طرح اس طُہرمیں بھی طلاق نہیں دے رہاکہ جس میں عورت سے صحبت کرچکاہےوغیرہ ۔

طلاق کے متعلق تفصیل یہ ہے :

   اللہ ورسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک طلاق انتہائی ناپسندیدہ کام ہے اورشیطان کے نزدیک انتہائی پسندیدہ کام ہے ۔ اس لیےبغیرضرورت وحاجت اوربغیرعذرشرعی کے طلاق دینامکروہ وممنوع ہے ۔فلہذا شریعت مطہرہ نے یہ پیاری تعلیم ارشادفرمائی ہے کہ  اگرطلاق دینے کی حاجت پیش بھی آئے  توایک طہرمیں صرف ایک رجعی طلاق دی جائے،ایک سے زائدطلاق نہ دی جائے ،اسی طرح بلاعذرطلاق بائن نہ دی جائے ۔اگرتین طلاقیں دینی بھی ہیں توہرطہرمیں ایک ایک طلاق دےکرتین کی تعدادپوری کرے ۔

   اوروجہ بالکل ظاہرہے کہ بسااوقات وقتی طورپرطلاق دینےکی حاجت پیش آتی ہے، لیکن جب کچھ وقت گزرتاہے تومعاملات ٹھیک ہوناشروع ہوجاتے ہیں ، ایسے میں اگرتین طلاقیں دی ہوں توبعدمیں  آسانی سے واپسی کی صورت نہیں بنتی اورسوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا(جیساکہ عموماًاس کامشاہدہ بھی ہے)اوربائن طلاق دی ہوتوایک تویہ بلاحاجت  طلاق دیناہوگا ، جبکہ طلاق دینے کی اجازت صرف حاجت کی صورت میں ہے اورحاجت رجعی طلاق سے بھی پوری ہوجاتی ہے اوردوسرااس سے نکاح ختم ہوجاتاہے اورپھردوبارہ نئے مہرکے ساتھ ،عورت کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرناہوتاہے ۔

   اوراگردو رجعی طلاقیں دی ہوں تواس میں بھی وجہ یہ ہے کہ یہ بلاحاجت دوسری  طلاق دینا ہوگا ، جبکہ طلاق دینے کی اجازت صرف حاجت کی صورت میں ہے اورحاجت  ایک  طلاق سے بھی پوری ہوجاتی ہے ۔

   اورایک رجعی طلاق دینے کافائدہ یہ ہوگاکہ دوسرے طہرتک ایک لمباپیریڈگزرے گا،جس میں دونوں خاندانوں کواچھی طرح غور وفکرکرنے کاموقع ملے گا، اگرمعاملات درست ہوجاتے ہیں تو پھر بغیر نئے نکاح کے فقط زبانی ہی رجوع ہوسکے گااوراگردوسراطُہرآنے پربھی طلاق کی حاجت محسوس ہو ، تودوسری طلاق رجعی دی جائے اوراس کے بعدپھرغوروفکرکاموقع ملے گااوراگرتیسرے طہرپربھی طلاق کی حاجت محسوس ہو ، تواب تیسری طلاق دے سکتاہے اوریہ فیصلہ جذباتی نہیں بلکہ خوب سوچ بچار، اورغوروفکرکرنے کے بعدہوگا،جس میں غلطی کاامکان بہت کم ہوگا۔

   بلکہ اس سے بھی بہترہے کہ عورت کوفقط ایک رجعی طلاق دی جائے ،پھرعدت ختم ہونے تک مزیدکوئی طلاق نہ دی جائے ،اگرعدت ختم ہونے تک رجوع کی صورت نہ بنی توعدت ختم ہونے کے بعدعورت خودبخودنکاح سے نکل جائے گی ۔اب اگرکبھی دوبارہ واپسی کاذہن بناتوفقط نئے مہرکے ساتھ باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنے سے واپسی ہوجائے گی ،حلالہ کی نوبت نہیں آئے گی اوراس کے بعدشوہرکودوطلاقوں کااختیاررہے گا۔اوراگرواپسی کاذہن نہ بناتوعورت توآزادہوہی گئی ہے، اگرکسی اورسے نکاح کرناچاہے توکرسکتی ہے ۔

طلاق کی حیثیت کے متعلق جزئیات:

   صحیح مسلم میں ہے:عن جابر قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ’’ إن إبليس يضع عرشه على الماء، ثم يبعث سراياه، فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة، يجيء أحدهم فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، قال ثم يجيء أحدهم فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته، قال: فيدنيه منه ويقول: نعم أنت " قال الأعمش: أراه قال: «فيلتزمه» “ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے ،پھر اپنے لشکر بھیجتا ہے، ان لشکروں میں ابلیس کے زیادہ قریب اُس کا دَرَجہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنے باز ہوتا ہے۔ اس کے لشکرمیں سے ایک آکر کہتا ہے: میں نے ایسا ایسا کیا ہے تو شیطان کہتا ہے : ” تُونے کچھ بھی نہیں کیا۔“ پھر ایک اور لشکر آتا ہے اور کہتا ہے: ”میں نے ایک آدمی کو اس وَقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جُدائی نہیں ڈال دی۔“ یہ سن کر ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے: ” تُوکتنا اچھا ہے!“ اعمش نے کہا:میرا خیال ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:پھر شیطان اسے اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔ (صحیح المسلم،رقم الحدیث 2813،ج 4،ص 2167، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   سنن ابی داؤد میں ہے:عن ابن عمر، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى اللہ تعالى الطلاق» “ ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”حلال چیزوں میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث 2178،ج 2،ص 255،المكتبة العصريہ، بيروت)

   ردالمحتارمیں ہے:’’ كونه مبغوضا لا ينافي كونه حلالا، فإن الحلال بهذا المعنى يشمل المكروه وهو مبغوض“ترجمہ:اس کا ناپسندیدہ ہونا،اس کے حلال ہونے کے منافی نہیں،حلال اس معنی میں مکروہ کو بھی شامل ہوتا ہے اور وہ یہی ناپسندیدہ ہونا ہے۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الطلاق،ج03،ص288،دارالفکر،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’ بے حاجت بلاعذرشرعی طلاق دینامکروہ وممنوع ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج12، ص332، رضافاؤنڈیشن،لاھور)

تعاون کے متعلق جزئیات:

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِترجمہ کنز الایمان:’’اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔‘‘ (سورۃ المائدۃ،پ06،آیت02)

   حاشیۃالشلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:”أورد كتاب الوكالة عقيب كتاب الشهادة لأن كل واحدة من الشهادة والوكالة إعانة الغير ۔۔۔الخ اهـ. أتقاني“ترجمہ:مصنف نے کتاب الوکالۃ کو کتاب الشہادۃ کے بعد ذکر کیا،کیونکہ شہادت و وکالت دونوں میں ہی دوسرے کی  اعانت ہوتی ہے ۔(تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی،کتاب الوکالۃ،ج 4،ص 254،مطبوعہ قاھرہ)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”عد ت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا حرام ہے۔ جس نے دانستہ عدت میں نکاح پڑھایا اگر حرام جان کر پڑھایا ، سخت فاسق اور زنا کار کا دلال ہوا ، مگر اس کا اپنا نکاح نہ گیا، اور اگر عدت میں نکاح کو حلال جانا تو خود اس کا نکاح جاتا رہا اور وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج 11،ص 266،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   ایک دوسرے مقام پرفرمایا:’’مگرکسی کی بیٹی کوجبراً بلانکاح لے جانا ، پھربالجبرنکاح کرناظلم پرظلم اورمسلمان کوعارلاحق کرناہے ۔۔۔۔گواہ ووکیل ومعین جتنے لوگ اس واقعہ پرآگاہ ہوکرزیدکی اعانت کریں گے سب اس کی مثل ظلم وحرام واستحقاق عذاب میں مبتلاہوں گے ۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج 11،ص 203،204،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

بدعی وغیرہ طلاقوں کے  متعلق جزئیات:

   ایک سے زائدطلاقیں اکٹھی دیناگناہ ہے چنانچہ درمختارمیں ہے :’’(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين)فی طھر واحد۔(لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ‘‘ ترجمہ:اوربدعی طلاق ایک ہی طہرمیں تین متفرق طلاقیں ہیں یاایک  ہی مرتبہ میں  دوطلاقیں ہیں یادومرتبہ میں دو طلاقیں ،ایسے طہرمیں کہ جس میں رجوع نہ کیا ہو یا جس طہر میں وطی کی ہو،اس طہر میں ایک طلاق ۔

   ردالمحتارمیں ہے:’’ (قوله والبدعي)منسوب إلى البدعة والمراد بها هنا المحرمة لتصريحهم بعصيانه بحر‘‘ترجمہ:بدعی ،بدعت کی طرف منسوب ہے اوراس سے بدعت محرمہ مرادہے کیونکہ فقہانے اس کے گناہ ہونے کی تصریح فرمائی ہے ۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الطلاق،باب رکن الطلاق،ج04،ص423،مطبوعہ کوئٹہ)

   بائن طلاق کے گناہ ہونے کے حوالے سے ردالمحتارمیں ہے:’’فالواحدة البائنة بدعية في ظاهر الرواية ‘‘ترجمہ:پس ایک بائنہ، طلاق بدعت ہے ظاہرالروایہ میں ۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الطلاق،باب رکن الطلاق، ج03، ص231، بیروت)

   بیوی کو حیض میں طلاق دینے سے شوہر گنہگار ہوگا اور طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔چنانچہ ہدایہ میں ہے :’’واذا طلق الرجل امرأ تہ فی حالۃ الحیض  وقع الطلاق‘‘یعنی جب مرد نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق د ی تو طلاق واقع ہوگئی ۔

   اس کے تحت بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’ویأثم باجماع الفقھاء‘‘اوراس پرفقہائے کرام کااجماع  واتفاق ہےکہ (حیض کی حالت میں طلاق دینے والا) گنہگار ہوگا۔(البنایۃ فی شرح الھدایۃ،جلد5،صفحہ17، مطبوعہ کوئٹہ )

   فتاوی رضویہ میں ہے:”حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے کہ حکمِ الہٰی﴿ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ﴾ ترجمۂ کنزالایمان : ’’تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو)مگر دے گا تو ضرور ہوجائے گی اور یہ گنہگار ۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد12، صفحہ 332،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    طلاق کی اقسام کے متعلق ہدایہ میں ہے:’’الطلاق على ثلاثة أوجه حسن وأحسن وبدعي فالأحسن أن يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها "۔۔۔ " والحسن هو طلاق السنة وهو أن يطلق المدخول بها ثلاثا في ثلاثة أطهار "۔۔۔ " وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا “ترجمہ: طلاق کی تین قسمیں ہیں:(1) حسن (2) احسن (3) بدعی۔(01) احسن یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ایسے طہر میں کہ  جس میں اس نے اس سے وطی نہ کی ہو اور پھر عورت کو چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔(02) حسن یہ طلاقِ سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ جس عورت سے دخول کرچکاہے،اس  کو تین طہروں میں تین طلاقیں دے(03) طلاقِ بدعت یہ ہے کہ مرد عورت کو ایک کلمے کے ساتھ تین طلاقیں دے یا پھر ایک طہر میں تین طلاقیں دے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی مگر گنہگار ہو گا۔ (ھدایہ،ج 1،ص 221،دار احیاء التراث العربی)        

   مسلمان کامعاملہ حتی الامکان صلاح پرمحمول کرناضروری ہے ،چنانچہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”جب تک خاص اس شَے میں جسے استعمال کرنا چاہتا ہے کوئی مظنہ قویہ حظر وممانعت کا نہ پایا جائے تفتیش وتحقیقات کی بھی حاجت نہیں مسلمان کو رواکہ اصل حل وطہارت پر عمل کرے اور یمکن ویحتمل وشاید ولعل کو جگہ نہ دے۔۔۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ شبہہ کی جگہ تفتیش وسوال بہتر ہے جب اس پر کوئی فائدہ مترتب ہوتا سمجھے۔۔۔ اور یہ بھی اسی وقت تک ہے جب اس احتیاط وورع میں کسی امراہم وآکد کا خلاف نہ لازم آئے کہ شرع مطہر میں مصلحت کی تحصیل سے مفسدہ کا ازالہ مقدم تر ہے مثلاً مسلمان نے دعوت کی یہ اس کے مال وطعام کی تحقیقات کررہے ہیں کہاں سے لایا، کیونکر پیدا کیا، حلال ہے یا حرام، کوئی نجاست تو اس میں نہیں ملی ہے کہ بیشک یہ باتیں وحشت دینے والی ہیں اور مسلمان پر بدگمانی کرکے ایسی تحقیقات میں اُسے ایذا دینا ہے خصوصاً اگر وہ شخص شرعاً معظم ومحترم ہو، جیسے عالمِ دین یا سچّا مرشد یا ماں باپ یا استاذ یا ذی عزت مسلمان سردار قوم تو اس نے اور بے جا کیا ایک تو بدگمانی دوسرے موحش باتیں تیسرے بزرگوں کا ترکِ ادب۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج 4،ص 514،526،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ایک سوال کیاگیا،جس کاخلاصہ کچھ یوں ہے کہ :ہمارے آباء واجدادسے ایک طریقہ چلاآرہاہے کہ مسجدکے قریب کچھ زمین ہے کہ جس میں ،مسجدمیں پانی کے متعلق خدمت پیش کرنے والے خادمین  کاشت کاری کرتے ہیں اورجوپیداوارحاصل ہوتی ہے ،اس میں سے خراج اداکرکے بقیہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ،اب یہ معلوم نہیں کہ یہ زمین  ہمارے آباء واجدادنےوقف کررکھی ہے (اورخادمین اس وقف کے مصرف ہیں)یازمین توانہی کی ملک تھی ،انہوں نے خادمین کے کام کی اجرت کے طورپرزمین کی پیداواران کے لیے مقررکررکھی ہےتوکیااب ہمیں اختیارہے کہ ہم  کہیں کہ زمین ہمارے آباء واجدادکی ہی ملک ہے اوراس میں ہم جوچاہیں کریں اورخادمین کوان کی خدمت کی اجرت رقم کی صورت میں اداکردیں ؟

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ  نے اس کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا :جب کسی کی ملکیت ثابت نہیں اور متعلق مسجدہونامعلوم ہے تواسے مسجدپروقف ہی سمجھاجائے گا،اوریہ کہناکہ خادمین کوجوپیداوارملتی ہے یہ ان کی اجرت کے طورپرہے تویہ درست نہیں کیونکہ اس طرح اجرت مجہول ہے کہ نہ جانے کتنی پیداواران کے لیے بچے بلکہ غرروخطرہے کہ ہوسکتاہے ان کے لیے  پیداواربچے ہی نہ کہ پیداوارہوہی نہ ،یاہولیکن وہ خراج میں ہی چلی جائے ، جبکہ ہمیں مسلمانوں کے کاموں کوحتی الامکان درستی پرمحمول کرناواجب ،لہذایہی قراردیں گے کہ    خادمین جو پیداوار لیتے ہیں ،یہ بطوراجرت نہیں بلکہ وقف کے مصرف کے طورپرلیتے ہیں یعنی  واقف ہی نے زمین اس طورپروقف کی ہی ہے کہ خادمین  اس کی کاشت کریں،خراج مسجدکودیں اورجوبچے وہ خوداستعمال کریں ،پس جب اس طرح اس کاوقف کرناثابت ہوگاتواب اس کوکوئی تبدیل نہیں کرسکتاکہ وقف میں تبدیلی کاکسی کواختیارنہیں ۔

امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کی عبارت درج ذیل ہے :

   ’’اور جبکہ کسی کی ملک ثابت نہیں، نہ اب دعوی ملک سنا جائے اور متعلق مسجد ہونا قطعاً معلوم کہ اسی کے خادمان آب کے تصرف میں رہتی ہے اور وہ مسجد کے لئے اس کا خراج ادا کرتے ہیں تو مسجد پر وقف ہی سمجھی جائے گی اوریہ طریقہ کہ اجرت آب میں ان کو دی جاتی ہے کہ خراج دیں او رباقی محاصل اپنی مزدوری میں لیں حرام ہے کہ اجرت مجہولہ بلکہ غرر وخطر میں ہے اور مسلمانوں کا کام حتی الامکان صلاح پر محمول کرنا واجب، کما نصواعلیہ قاطبۃ فی غیرمامقام  (جیسا کہ علماء نے متعدد مقامات پر اس کی صراحت کی۔ت) تو یہ تعامل قدیم یوں سمجھاجائے گا کہ واقف ہی نے زمین اسی شرط پر وقف کی کہ خادمان آب مسجد اس کی کاشت کریں اور محاصل کھائیں اور خراج مسجد کو دیں تو اس طریقے کی تبدیل کسی کے اختیار میں نہیں۔‘‘     (فتاوی رضویہ،ج16،ص476،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم