مجیب: ابو احمد
محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-1377
تاریخ اجراء: 15رجب المرجب1444 ھ/07فروری2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
خلع
کیا ہوتا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل ارشاد فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی اصطلاح میں خلع سے مراد
یہ ہے کہ شوہر اپنی مرضی سے مہر یا دیگر مال کے عوض
،لفظ خلع یااس کے ہم معنی کسی لفظ کے ساتھ عورت کو نکاح سے جدا
کردے ۔عورت کا قبول کرنا بھی شرط ہے ،لیکن شوہر کے دئیے
بغیر تنہا عورت نہیں لے سکتی ، اسی طرح شوہر کی
جگہ کوئی اوراس کی اجازت کے
بغیراس کی بیوی کوخلع نہیں دے سکتا۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:(
وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ
اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ
یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ
اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ
اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ
بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ
مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الظّٰلِمُوْنَ) ترجمہ: تمھیں حلال نہیں کہ جو کچھ
عورتوں کو دیا ہے اُس میں سے کچھ واپس لو، مگر جب دونوں کو
اندیشہ ہو کہ اﷲ کی حدیں قائم نہ رکھیں گے پھر اگر
تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اﷲ کی حدیں قائم نہ
رکھیں گے تو اُن پر کچھ گناہ نہیں، اِس میں کہ بدلا دیکر
عورت چھٹی لے، یہ اﷲ کی حدیں ہیں ان سے
تجاوز نہ کرو اورجو اﷲ کی
حدوں سے تجاوز کریں تو وہ لوگ
ظالم ہیں۔(پارہ 2،سورۃ البقرہ
،آیت 229)
قرآن پاک
میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(الذی
بیدہ عقدۃ النکاح)ترجمہ:جس کے ہاتھ میں
نکاح کی گرہ ہے۔ (یعنی شوہر) (سورۃ
البقرۃ،پ2، آیت 337)
اس
آیت کے تحت تفسیر نور العرفان میں ہے :’’معلوم ہوا کہ
نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے ،طلاق کا اس
کوہی حق ہے، عورت کو نہیں۔نہ خلع میں نہ بغیر خلع
۔یعنی خلع میں مرد کی مرضی پر طلاق موقوف
ہوگی ۔آج کل عوام نے جو خلع کے معنی سمجھے ہیں کہ
عورت اگر مال دے دے توبہر حال طلاق ہو جاوے گی خواہ مرد طلاق دے یا نہ
دے ،یہ غلط ہے۔‘‘(تفسیر نورالعرفان، صفحہ736،
نعیمی کتب خانہ،گجرات)
ابن ماجہ کی حدیث
پاک ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’الطلاق
لمن أخذ بالساق‘‘ ترجمہ: طلاق تو وہی دے سکتا ہے جس
نے جماع کیا۔ (یعنی جو صحبت اور ہمبستری کا حقدار
ہے وہی طلاق کا حق رکھتا ہے۔)
درمختار میں ہے’’ ھو شرعا
ازالۃ ملک النکاح المتوقفۃ علی قبولھا بلفظ الخلع أو ما
فی معناہ و
حکمہ أن الواقع بہ طلاق بائن‘‘(ملتقطاً)یعنی
شرعی رو سے الفاظ خلع یا اس کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ عورت
کی اجازت پر موقوف کرکے ملک نکاح زائل کرنے کا نام خلع ہے اور اس کا حکم
یہ ہے کہ خلع سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے ۔ (درمختار
معہ ردا لمحتار،جلد5،صفحہ86-93،مطبوعہ
کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے ’’ خلع
شرع میں اسے کہتے ہیں کہ شوہر برضائے خود مہر وغیرہ مال کے عوض
عورت کو نکاح سے جدا کردے تنہا زوجہ کے کئے نہیں ہوسکتا ۔‘‘(فتاوی
رضویہ ،جلد13،صفحہ264،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
:’’مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا
شرط ہے بغیر اُس کے قبول کیے خلع نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘(بہار
شریعت ،جلد2،حصہ 8،صفحہ194، مکتبۃ المدینہ ،کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیا اب کیا حکم ہے؟
میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہےتو اب بچے کس کےپاس رہیں گے؟
میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی رہی کیا اب نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؟
اپنی روٹی الگ پکاؤ،مجھ سے دورہوجاؤ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلا ق ہوجاتی ہے یا نہیں؟
کیا سوتے میں طلاق دینے سے ہوجاتی ہے یا نہیں؟
طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟
جہیز کے سامان کا حکم