Jo Bad Akhlaq Biwi Ko Talaq Na De To Kya Uski Dua Qubool Nahi Hoti?

 

’’جو بداخلاق بیوی کو طلاق نہ دے، تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی‘‘ کیا یہ حدیث ہے؟ نیز اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-7519

تاریخ اجراء: 27ربیع الثانی   1446ھ31 اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ ایک   کلپ سنا کہ جس میں کوئی شخص ایک حدیث بیان کر رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جس کی بیوی بداخلاق ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے، تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے چند سوالات ہیں :

   (1)کیا یہ حدیث  پاک  ثابت ہے ؟

   (2)اور اگر ثابت ہے، توکیا واقعی ایسے شخص کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی ؟  اس کاصحیح  مفہوم  بیان کر دیجئے۔

   (3)کیا بداخلاق بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے؟ اگر اسے طلاق نہ دی ، توبندہ گنہگار ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) جی ہاں ! یہ حدیث مبارک ثابت ہے اور  مختلف کتبِ حدیث میں موجود ہے۔ حدیث متن اور ترجمہ  کے ساتھ درج کی جا رہی ہے :

حدیث مع عربی متن و ترجمہ :

   نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ثلاثۃ یدعون اللہ لا یستجاب  لھم  : رجل کانت تحتہ امراۃ  سیئۃ الخلق فلم یطلقھا و رجل کان لہ  علی رجل مال  فلم یشھد علیہ و رجل اتی سفیھا  مالہ و قد قال اللہ عزوجل ﴿وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ “ ترجمہ :تین ایسے افراد ہیں ، جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، تو ان کی دعا قبول نہیں کی جاتی : (۱) ایسا شخص جس کے تحت بد اخلاق عورت ہو،پھر  وہ اُسے طلاق نہ دے  اور (۲) وہ شخص جس کا کسی اور  شخص کے اوپر مال بنتا ہو، وہ اُس پر  کوئی گواہ نہ بنائے  اور (۳)  وہ شخص جو اپنا مال کسی بیوقوف و بے عقل کو دے ۔ تحقیق  اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اور بے عقلوں کو ان کے مال نہ دو۔(المستدرک علی الصحیحین ، ج 4 ، ص 144 ، رقم الحدیث :3222 ، دار التاصیل ، بیروت )

سندی حیثیت :

   اس حدیث کی سند صحیح و نظیف ہے ۔ جیسا کہ امام حاکم علیہ الرحمۃ نے مستدرک میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : ”ھذا حدیث صحیح  علی شرط الشیخین  و لم یخرجاہ “ ترجمہ :یہ حدیث  امام بخاری اور امام مسلم علیہما الرحمۃ کی شرط پر صحیح  ہے  ، لیکن انہوں نے اس حدیث کو( اپنی کتب میں) روایت نہیں کیا۔(المستدرک علی الصحیحین ، ج 4 ، ص 144 ، تحت الرقم  :3222 ، دار التاصیل ، بیروت )

   رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن اس حدیث مبارک کو اپنی کتاب ” احسن الوعاء لآداب الدعاء   میں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ”اخرجہ الحاکم  عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسند نظیف  (یعنی اسے امام حاکم  علیہ الرحمۃ نے سندِ نظیف (جرح سے صاف ستھری سند) کے ساتھ روایت کیا ہے۔) (احسن الوعاء لآداب الدعاء ،ص160، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   (2) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ان افراد  کی دعا مطلقاً  کسی معاملے میں بھی قبول نہیں کی جاتی، بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ   حدیث مبارک میں بیان کردہ افراد کی جو مشکلات بیان کی گئی ہیں ، ان  کا حل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے، اب اگر وہ خود کچھ کیے بغیر محض دعا کے ذریعے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہیں، تو خاص اس معاملے میں قبول نہیں کی جائے گی، جیسے اگر کسی کی بیوی بداخلاق ہو اور  شوہراس کی بد اخلاقی پرصبر نہیں  کر سکتا، لیکن وہ  اُسے طلاق دے کر علیٰحدگی اختیار کرنے کی بجائے بارگاہِ الہٰی جل  جلالہ  میں اُس  سے خلاصی (چھٹکارے)  کی دعا کرے ، تو  اُس کی یہ دعا قبول نہیں کی جائے گی، اس وجہ سے کہ اگر وہ اُس سے خلاصی (چھٹکارا) حاصل کرنا چاہتا ہے، توشرعی اعتبار سے یہ اختیار اُس  کے پاس موجود ہے یعنی وہ طلاق دے کر اس سے علیٰحدگی اختیار کر سکتا ہے ، لیکن وہ اپنے اختیار کو استعمال کرنے کی بجائے اُس عورت سے چھٹکارے کے لیے دعا کررہا ہے، تو اُس کی یہ دعا قبول نہیں کی جائے گی ۔ہاں ! اگر اِس معاملے کے علاوہ وہ کوئی اور دعا کرے، تو ان شاء اللہ عزوجل اُس کی وہ دعا قبول ہو گی ۔

   ذکر کردہ حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ” (ثلاثة يدعون اللہ عز وجل فلا يستجاب لهم رجل كانت تحته امرأة سيئة الخلق) بالضم (فلم يطلقها) فإذا دعى عليها لا يستجيب له لأنه المعذب نفسه بمعاشرتها وهو في سعة من فراقها (ورجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه) فأنكره فإذا دعى لا يستجاب له لأنه المفرط المقصر بعدم امتثال قوله تعالى﴿وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۚ ﴾ (ورجل أتى سفيها) أي محجورا عليه بسفه (ماله) أي شيئا من ماله مع علمه بالحجر عليه فإذا دعى عليه لا يستجاب له لأنه المضيع لماله فلا عذر له “ترجمہ :تین ایسے افراد ہیں ، جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، تو ان کی دعا قبول نہیں کی جاتی : (۱) ”ایسا شخص جس کے تحت بد اخلاق عورت ہو(سیئۃ الخلق : خاء پر ضمہ کے ساتھ ہے۔)،پھر  وہ اسے طلاق نہ دے   جب وہ شخص  اُس (بد اخلاق زوجہ)  کے خلاف دعا کرتا ہے ، تو اُس کی دعا قبول نہیں کی جاتی ،اس وجہ سے کہ وہ خود اُس کے ساتھ رہ کر اپنے آپ کو عذاب میں ڈالے ہوئے ہے ، حالانکہ وہ اُس سے جدا ہونے کی  طاقت رکھتا ہے اور(۲) ”وہ شخص جس کا کسی اور  شخص کے اوپر مال بنتا ہو، وہ اُس پر  کوئی  گواہ نہ بنائے“ پھر وہ انکار کر دے ، تو جب وہ اُس پر دعا کرے ، تو اُس کی دعا قبول نہ کی جائے گی ، کیونکہ   وہ خود حد سے بڑھنے والا اور کوتاہی کرنے والا ہے، اس وجہ سے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے اِس حکم پر عمل نہیں کیا کہ ” اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنالو۔“  (۳) وہ شخص جو اپنا مال کسی بیوقوف و بے عقل کو دے“یعنی ایسے شخص کو اپنا مال دے ، جس کی نا سمجھی  کی وجہ سے شریعت مطہرہ نے اُسے مالی تصرفات سے روک رکھا ہے ، باوجود اس کے وہ یہ بات جانتے ہوئے  کہ   یہ شرعاً مالی تصرف نہیں کر سکتا، پھر بھی اسے کوئی چیز دے دے ، پس جب وہ اُس پر دعا کرے گا، تو اُس کی دعا قبول نہ کی جائے گی ، کیونکہ اس نے اپنا مال خود ضائع  کیا ، لہٰذا اس کا کوئی عذر نہیں ہے۔(فیض القدیر، ج3 ، ص 336 ، مطبوعہ مصر)

   رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن اس حدیث مبارک  کی شرح کرتے  ہوئے فرماتے ہیں : ”اقول و باللہ التوفیق ‘‘مگر ظاہراً اِس سے مراد یہی ہے کہ اِس خاص مادے میں اُن کی دعا نہ سنی جائے گی ، نہ یہ کہ جو ایسا کرے ، مطلقاً اس کی کوئی دعا کسی امر میں قبول نہ ہو اور  ان امور میں عدمِ قبول کا سبب ظاہر ہے  کہ یہ کام خود اپنے ہاتھوں کے کیے ہیں۔۔۔۔ اور عورت کی نسبت صحیح حدیث  سے ثابت ہے کہ ٹیڑی پسلی سے بنی ہے ، اِس کی کجی ہرگز نہ جائے گی ، سیدھا کرنا چاہو، تو ٹوٹ جائے گی اور اِس کا ٹوٹنا یہ ہے کہ طلاق دے دی جائے  ۔ پس یا تو آدمی اِس کی کجی پر صبر کرے  یا طلاق دیدے  کہ نہ طلاق دیتا ہے، نہ صبر کرتا ہے، بلکہ بددعا دیتا ہے، قابل قبول نہیں ۔“ (احسن الوعاء لآداب الدعاء ، ص161-162، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   (3)بد اخلاق بیوی کو طلاق دینا شرعاً واجب نہیں ہے، اگروہ اُسے طلاق نہیں دیتا  اور اُس کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے ، تو گنہگار نہیں ہوگا۔ البتہ اگروہ اُس کی  بد اخلاقی کی وجہ سے اُسے طلاق دینا چاہے، توطلاق دینا شرعاً جائز  ہے۔

    در مختار میں ہے : ”یستحب لومؤذیۃ او تارکۃ صلاۃ . غایۃ .و مفادہ ان لا اثم بمعاشرۃ من لا تصلی“ ترجمہ :اگر عورت ایذاء دینے والی ہو یا نماز کو ترک کرنے والی ہو، تو اسے طلاق دینا مستحب ہے ۔ غایہ ۔  اور اس کا مفاد یہ ہے کہ بے نمازی عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا گناہ نہیں ہے۔(در مختار، ج4 ، ص 416، مطبوعہ پشاور)

   علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃمؤذیۃ “ پر وضاحت فرماتے ہیں  : ”اطلقہ فشمل المؤذیۃ لہ او لغیرہ بقولھا او بفعلھا“ ترجمہ :  ماتن نے ” المؤذیۃ “ کو  مطلق رکھا  کہ  شوہر  یا اس کے علاوہ کسی کو قول یا فعل کے ساتھ اذیت دینے والی کو شامل ہو جائے۔(رد المحتار علی الدرالمختار، ج4 ، ص 416، مطبوعہ پشاور)

   صدر الشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” طلاق دینا جائز ہے ، مگر بے وجہِ شرعی ممنوع ہے اور وجہِ شرعی ہو ، تو مباح  ، بلکہ بعض صورتوں میں مستحب مثلاً:عورت اس کو یا اوروں کو ایذا دیتی یا نماز نہیں پڑھتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ بے نمازی عورت کو طلاق دے دوں اور اُس کا مہر میرے ذمہ باقی ہو، اس حالت کے ساتھ دربارِ خدا میں میری پیشی ہو، تو یہ اُس سے بہتر ہے کہ اُس کے ساتھ زندگی بسر کروں۔ اور بعض صورتوں میں طلاق دینا واجب ہے، مثلاً: شوہر نامرد یا ہیجڑا ہے یا اس پر کسی نے جادو یا عمل کردیا ہے کہ جماع کرنے پر قادر نہیں اور اس کے ازالہ کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ان صورتوں میں طلاق نہ دینا سخت تکلیف پہنچانا ہے۔(بھار شریعت،ج2،حصہ 8، ص110، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم